Ayah Study
Surah Ad-Dukhaan (سُورَةُ الدُّخَانِ), Verse 35
Ayah 4449 of 6236 • Meccan
إِنْ هِىَ إِلَّا مَوْتَتُنَا ٱلْأُولَىٰ وَمَا نَحْنُ بِمُنشَرِينَ
Translations
The Noble Quran
English"There is nothing but our first death, and we shall not be resurrected.
Muhammad Asad
EnglishVERILY, the Day of Distinction [between the true and the false] is the term appointed for all of them:
Fatah Muhammad Jalandhari
Urduکہ ہمیں صرف پہلی دفعہ (یعنی ایک بار) مرنا ہے اور (پھر) اُٹھنا نہیں
Tafsir (Commentary)
Tafsir al-Sa'di
Salafi Approvedيخبر تعالى { إِنَّ هَؤُلَاءِ } المكذبين يقولون مستبعدين للبعث والنشور: { إِنْ هِيَ إِلَّا مَوْتَتُنَا الْأُولَى وَمَا نَحْنُ بِمُنْشَرِينَ } أي: ما هي إلا الحياة الدنيا فلا بعث ولا نشور ولا جنة ولا نار
Tafsir al-Muyassar
Salafi Approvedإن هؤلاء المشركين مِن قومك -أيها الرسول- ليقولون: ما هي إلا موتتنا التي نموتها، وهي الموتة الأولى والأخيرة، وما نحن بعد مماتنا بمبعوثين للحساب والثواب والعقاب.
Tafsir Ibn Kathir
Salafi Approvedيقول تعالى منكرا على المشركين فى إنكارهم البعث والمعاد وأنه ما ثم إلا هذه الحياة الدنيا ولا حياة بعد الممات ولا بعث ولا نشور ويحتجون بأبائهم الماضين الذين ذهبوا فلم يرجعوا فإن كان البعث حقا "فأتوا بأبائنا إن كنتم صادقين".
Tafsir Ibn Kathir
Refutation of Those Who deny the Resurrection Here Allah denounces the idolators for their denial of the Resurrection and their belief that there is nothing after this life and no life or resurrection after death, which they based on the fact that their forefathers had died and had not returned. They said, If the resurrection is true, فَأْتُواْ بِـَابَآئِنَا إِن كُنتُمْ صَـدِقِينَ (Then bring back our forefathers, if you speak the truth!) This is false evidence and a specious argument, for the resurrection will happen on the Day of Judgement, not in this world; it will happen when this world has ended and ceased to be. Allah will bring all creatures back, created anew. He will make the evildoers fuel for the fire of Hell, and on that Day you will be witnesses over mankind and the Messenger will be a witness over you. Then Allah threatens them and warns them of the irresistible torment other idolators like who denied the resurrection, suffered. Such as the people of Tubba`, i.e., Saba'. Allah destroyed them, wreaked havoc upon their land and scattered them here and there throughout the land, as we have already seen in Surah Saba'. This was brought about because the idolators denied the Resurrection. Here too, the idolaters are compared to them. They Tubba` were Arab descendants of Qahtan, just as these people (Quraysh) were Arab descendants of `Adnan. Among the people of Himyar -- who are also known as Saba' -- when a man became their king, they called him Tubba`, just as the title Chosroes was given to the king of Persia, Caesar to the king of the Romans, Fir`awn to the disbelieving ruler of Egypt, Negus to the king of Ethiopia, and so on among other nations. But it so happened that one of the Tubba` left Yemen and went on a journey of conquest until he reached Samarqand, expanding his kingdom and domain. He is the one who founded Al-Hirah. It is agreed that he passed through Al-Madinah during the days of Jahiliyyah. He fought its inhabitants but they resisted him; they fought him by day and supplied him with food by night, so he felt ashamed before them and refrained from harming them. He was accompanied by two Jewish rabbis who advised him and told him that he would never prevail over this city, for it would be the place to which a Prophet would migrate towards the end of time. So he retreated and took them (the two rabbis) with him to Yemen. When he passed by Makkah, he wanted to destroy the Ka`bah, but they told him not to do that either. They told him about the significance of this House, that it had been built by Ibrahim Al-Khalil, peace be upon him, and that it would become of great importance through that Prophet who would be sent towards the end of time. So he respected it, performed Tawaf around it, and covered it with a fine cloth. Then he returned to Yemen and invited its people to follow the religion of guidance along with him. At that time, the religion of Musa, peace be upon him, was the religion followed by those who were guided, before the coming of the Messiah, peace be upon him. So the people of Yemen accepted the religion of guidance along with him. `Abdur-Razzaq recorded that Abu Hurayrah, may Allah be pleased with him, said, "The Messenger of Allah ﷺ said: «مَا أَدْرِي تُبَّعٌ نَبِيًّا كَانَ، أَمْ غَيْرَ نَبِي» (I do not know whether Tubba` was a Prophet or not.) It was narrated that Tamim bin `Abdur-Rahman said: " `Ata' bin Abi Rabah said, `Do not revile Tubba`, for the Messenger of Allah ﷺ forbade reviling him."' And Allah knows best.
Tafsir Ibn Kathir
Salafi Approvedشہنشاہ تبع کی کہانی یہاں مشرکین کا انکار قیامت اور اس کی دلیل بیان فرما کر اللہ تعالیٰ اس کی تردید کرتا ہے ان کا خیال تھا کہ قیامت آنی نہیں مرنے کے بعد جینا نہیں۔ حشر اور نشر سب غلط ہے دلیل یہ پیش کرتے تھے کہ ہمارے باپ دادا مرگئے وہ کیوں دوبارہ جی کر نہیں آئے ؟ خیال کیجئے یہ کس قدر بودی اور بےہودہ دلیل ہے دوبارہ اٹھ کھڑا ہونا مرنے کے بعد جینا قیامت کو ہوگا نہ کہ دنیا میں پھر لوٹ کر آئیں گے۔ اس دن یہ ظالم جہنم کا ایندھن بنیں گے اس وقت یہ امت اگلی امتوں پر گواہی دے گی اور ان پر انکے نبی ﷺ گواہی دیں گے پھر اللہ تعالیٰ انہیں ڈرا رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے جو عذاب اسی جرم پر اگلی قوموں پر آئے وہ تم پر بھی آجائیں اور ان کی طرح بےنام و نشان کر دئیے جاؤ۔ ان کے واقعات سورة سبا میں گذر چکے ہیں وہ لوگ بھی قحطان کے عرب تھے جیسے یہ عدنان کے عرب ہیں حمیر جو سبا کے تھے وہ اپنے بادشاہ کو تبع کہتے تھے جیسے فارس کے بادشاہ کو کسریٰ اور روم کے ہر بادشاہ کو قیصر اور مصر کے ہر بادشاہ کو فرعون اور حبشہ کے ہر بادشاہ کو نجاشی کہا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک تبع یمن سے نکلا اور زمین پھرتا رہا سمرقند پہنچ گیا ہر جگہ کے بادشاہوں کو شکست دیتا رہا اور اپنا بہت بڑا ملک کرلیا زبردست لشکر اور بیشمار رعایا اس کے ماتحت تھی اس نے حیرہ نامی بستی بسائی یہ اپنے زمانے میں مدینے میں بھی آیا تھا اور یہاں کے باشندوں سے بھی لڑا لیکن اسے لوگوں نے اس سے روکا خود اہل مدینہ کا بھی اس سے یہ سلوک رہا کہ دن کو تو لڑتے تھے اور رات کو انکی مہمان داری کرتے تھے آخر اس کو بھی لحاظ آگیا اور لڑائی بند کردی اس کے ساتھ یہاں کے دو یہودی عالم ہوگئے تھے جو حضرت موسیٰ کے سچے دین کے عامل بھی تھے وہ اسے ہر وقت بھلائی برائی سمجھاتے رہتے تھے انہوں نے کہا کہ آپ مدینے کو تاخت و تاراج نہیں کرسکتے کیونکہ یہ آخر زمانے کے پیغمبر ﷺ کی ہجرت کی جگہ ہے۔ پس یہاں سے لوٹ گیا اور ان دونوں عالموں کو اپنے ساتھ لیتا چلا جب یہ مکہ پہنچا تو اس نے بیت اللہ کو گرانا چاہا لیکن ان دونوں عالموں نے اسے روکا اور اس پاک گھر کی عظمت و حرمت بیان کی اور کہا کہ اس کے بانی خلیل اللہ حضرت ابراہیم ہیں۔ اور اس نبی آخر الزمان کے ہاتھوں پھر اس کی اصلی عظمت آشکارا ہوجائے گی۔ چناچہ یہ اپنے ارادے سے باز آیا بلکہ بیت اللہ کی بڑی تعظیم و تکریم کی طواف کیا غلاف چڑھایا اور یہاں سے یمن واپس چلا گیا۔ خود حضرت موسیٰ کے دین میں داخل ہوا اور تمام یمن میں یہی دین پھیلایا اس وقت تک حضرت مسیح کا ظہور نہیں ہوا تھا اور اس زمانے والوں کے لئے یہی سچا دین تھا۔ اس طرح کے واقعات بہت تفصیل سے سیرۃ ابن اسحاق میں موجود ہیں۔ اور حافظ ابن عساکر بھی اپنی کتاب میں بہت تفصیل کے ساتھ لائے ہیں اس میں ہے کہ اس کا پائے تخت دمشق میں تھا اس کے لشکروں کی صفیں دمشق سے لے کر یمن تک پہنچتی تھیں۔ ایک حدیث میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں۔ میں نہیں جان سکا کہ حد لگنے سے گناہ کا کفارہ ہوجاتا ہے یا نہیں ؟ اور نہ مجھے یہ معلوم ہے کہ تبع ملعون تھا یا نہیں ؟ اور نہ مجھے یہ خبر ہے کہ ذوالقرنین نبی تھے یا بادشاہ اور روایت میں ہے کہ یہ بھی فرمایا حضرت عزیر پیغمبر تھے یا نہیں ؟ (ابن ابی حاتم) دار قطنی فرماتے ہیں اس حدیث کی روایت صرف عبدالرزاق سے ہی ہے اور سند سے مروی ہے کہ حضرت عزیر کا نبی ہونا مجھے معلوم نہیں نہ میں یہ جانتا ہوں کہ تبع پر لعنت کروں یا نہیں ؟ اسے وارد کرنے کے بعد حافظ ابن عساکر نے وہ روایتیں درج کی ہیں جن میں تبع کو گالی دینے اور لعنت کرنے سے ممانعت آئی ہے جیسے کہ ہم بھی وارد کریں گے انشاء اللہ۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ پہلے کافر تھے پھر مسلمان ہوگئے یعنی حضرت موسیٰ کلیم اللہ کے دین میں داخل ہوئے اور اس زمانے کے علماء کے ہاتھ پر ایمان قبول کیا۔ بعثت مسیح سے پہلے کا یہ واقعہ ہے جرہم کے زمانے میں بیت اللہ کا حج بھی کیا غلاف بھی چڑھایا اور بڑی تعظیم و تکریم کی چھ ہزار اونٹ نام اللہ قربان کئے اور بھی بہت بڑا طویل واقعہ ہے جو حضرت ابی بن کعب، حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے۔ اور اصل قصہ کا دارومدار حضرت کعب احبار اور حضرت عبداللہ بن سلام پر ہے۔ وہب بن منبہ نے بھی اس قصہ کو وارد کیا ہے حافظ ابن عساکر نے اس تبع کے قصے کے ساتھ دوسرے تبع کے قصے کو بھی ملا دیا ہے جو ان کے بہت بعد تھا اس کی قوم تو اس کے ہاتھ پر مسلمان ہوگئی تھی پھر ان کے انتقال کے بعد وہ کفر کیطرف لوٹ گئی۔ اور دوبارہ آگ اور بتوں کی پرستش شروع کردی۔ جیسے کہ سورة سباء میں مذکور ہے اسی کی تفسیر میں ہم نے بھی وہاں اس کی پوری تفصیل لکھ دی ہے فالحمد للہ۔ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں اس تبع نے کعبے پر غلاف چڑھایا تھا آپ لوگوں کو منع کرتے تھے کہ اس تبع کو برا نہ کہو یہ درمیان کا تبع ہے اس کا نام اسعد ابو کرب بن ملکیرب یمانی ہے۔ اس کی سلطنت تین سو چھبیس سال تک رہی اس سے زیادہ لمبی مدت ان بادشاہوں میں سے کسی نے نہیں پائی۔ حضور ﷺ سے تقریبًا سات سو سال پہلے اس کا انتقال ہوا ہے مورخین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ ان دونوں موسوی عالموں نے جو مدینے کے تھے انہوں نے جب تبع بادشاہ کو یقین دلایا کہ یہ شہر نبی آخر الزمان حضرت احمد ﷺ کا ہجرت گاہ ہے تو اس نے ایک قصیدہ کہا تھا اور اہل مدینہ کو بطور امانت دے گیا تھا جو ان کے پاس ہی رہا اور بطور میراث ایک دوسرے کے ہاتھ لگتا رہا اور اس کی روایت سند کے ساتھ برابر چلی آتی رہی یہاں تک کہ حضور ﷺ کی ہجرت کے وقت اس کے حافظ ابو ایوب خالد بن زید عضی اللہ عنہ تھے اور اتفاق سے بلکہ بہ حکم اللہ آنحضرت ﷺ کا نزول اجلال بھی یہیں ہوا تھا اس قصیدے کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں (شھدت علی احمد انہ رسول من اللہ باری النسیم فلو مد عمری الی عمرہ لکنت وزیر الہ و ابن عم وجاھدت بالسیف اعداءہ وفرجت عن صدرہ کل غم) یعنی میری تہ دل سے گواہی ہے کہ حضرت احمد مجتبیٰ ﷺ اس اللہ کے سچے رسول ہیں جو تمام جانداروں کا پیدا کرنے والا ہے۔ اگر میں اس کے زمانے تک زندہ رہا تو قسم اللہ کی آپ کا ساتھی اور آپ کا معاون بن کر رہوں گا اور آپ کے دشمنوں سے تلوار کے ساتھ جہاد کروں گا اور کسی کھٹکے اور غم کو آپ کے پاس تک پھٹکنے نہ دوں گا۔ ابن ابی الدنیا میں ہے کہ دور اسلام میں صفا شہر میں اتفاق سے قبر کھد گئی تو دیکھا گیا کہ دو عورتیں مدفون ہیں جن کے جسم بالکل سالم ہیں اور سرہانے پر چاندی کی ایک تختی لگی ہوئی ہے جس میں سونے کے حروف سے یہ لکھا ہوا ہے کہ یہ قبر حی اور لمیس کی ہے اور ایک روایت میں ان کے نام حبی اور تماخر ہیں یہ دونوں تبع کی بہنیں ہیں یہ دونوں مرتے وقت تک اس بات کی شہادت دیتی رہیں کہ لائق عبادت صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے یہ دونوں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتی تھیں۔ ان سے پہلے کے تمام نیک صالح لوگ بھی اسی شہادت کے ادا کرتے ہوئے انتقال فرماتے رہے ہیں۔ سورة سباء میں ہم نے اس واقعہ کے متعلق سبا کے اشعار بھی نقل کر دئیے ہیں۔ حضرت کعب فرمایا کرتے تھے کہ تبع کی تعریف قرآن سے اس طرح معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم کی مذمت کی ان کی نہیں کی حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ تبع کو برا نہ کہو وہ صالح شخص تھا ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تبع کو گالی نہ دو وہ مسلمان ہوچکا تھا طبرانی اور مسند احمد میں بھی یہ روایت ہے عبدالرزاق میں حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ مجھے معلوم نہیں تبع نبی تھا یا نہ تھا ؟ اور روایت میں اس سے پہلے گذر چکی کہ میں نہیں جانتا تبع ملعون تھا یا نہیں ؟ فاللہ اعلم۔ یہی روایت حضرت ابن عباس سے بھی مروی ہے حضرت عطاء بن ابو رباح فرماتے ہیں تبع کو گالی نہ دو رسول اللہ ﷺ نے انہیں برا کہنا منع فرمایا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
Additional Authentic Tafsir Resources
Access comprehensive classical Tafsir works recommended by scholars, available online for free
Tafsir Ibn Kathir
The greatest of tafseers - interprets Quran with Quran, Sunnah, Salaf statements, and Arabic
Tafsir As-Sa'di
Excellent tafsir by Shaykh Abdur-Rahman As-Sa'di - simple expressions with tremendous knowledge
Tafsir At-Tabari
Comprehensive and all-inclusive tafsir by Ibn Jarir At-Tabari - earliest major running commentary
Tafsir Al-Baghawi
Trustworthy classical tafsir - Ma'alim al-Tanzil by Al-Husayn ibn Mas'ud al-Baghawi
Scholarly Recommendation: These four tafseers are highly recommended by scholars. Tafsir Ibn Kathir is considered the greatest for its methodology of interpreting Quran with Quran, then Sunnah, then Salaf statements, and finally Arabic language. Tafsir As-Sa'di is excellent for its clarity and simple expressions. All sources are authentic and freely accessible.
Hadith References
Access authentic hadith references and scholarly commentary linked to this verse from trusted Islamic sources
Opens interactive viewer with embedded content from multiple sources
💡 Tip: Click "View Hadith References" to see embedded content from multiple sources in one place. External links open in new tabs for direct access.
Additional Tafsir Resources (Altafsir.com)
Access 7+ classical tafsir commentaries and historical context from the Royal Aal al-Bayt Institute
Links open in a new tab. Content provided by the Royal Aal al-Bayt Institute for Islamic Thought.