Taa-Haa 38Juz 16

Ayah Study

Surah Taa-Haa (سُورَةُ طه), Verse 38

Ayah 2386 of 6236 • Meccan

إِذْ أَوْحَيْنَآ إِلَىٰٓ أُمِّكَ مَا يُوحَىٰٓ

Translations

The Noble Quran

English

"When We inspired your mother with that which We inspired.

Muhammad Asad

English

when We inspired thy mother with this inspiration:

Fatah Muhammad Jalandhari

Urdu

جب ہم نے تمہاری والدہ کو الہام کیا تھا جو تمہیں بتایا جاتا ہے

Tafsir (Commentary)

Tafsir al-Sa'di

Salafi Approved
Abdur-Rahman ibn Nasir al-Sa'diArabic

تفسير الآيتين 38 و 39 :ـحيث ألهمنا أمك أن تقذفك في التابوت وقت الرضاع، خوفا من فرعون، لأنه أمر بذبح أبناء بني إسرائيل، فأخفته أمه، وخافت عليه خوفا شديدا فقذفته في التابوت، ثم قذفته في اليم، أي: شط نيل مصر، فأمر الله اليم، أن يلقيه في الساحل، وقيض أن يأخذه، أعدى الأعداء لله ولموسى، ويتربى في أولاده، ويكون قرة عين لمن رآه، ولهذا قال: { وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِنِّي } فكل من رآه أحبه { وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِي } ولتتربى على نظري وفي حفظي وكلاءتي، وأي نظر وكفالة أجلّ وأكمل، من ولاية البر الرحيم، القادر على إيصال مصالح عبده، ودفع المضار عنه؟! فلا ينتقل من حالة إلى حالة، إلا والله تعالى هو الذي دبّر ذلك لمصلحة موسى، ومن حسن تدبيره، أن موسى لما وقع في يد عدوه، قلقت أمه قلقا شديدا، وأصبح فؤادها فارغا، وكادت تخبر به، لولا أن الله ثبتها وربط على قلبها، ففي هذه الحالة، حرم الله على موسى المراضع، فلا يقبل ثدي امرأة قط، ليكون مآله إلى أمه فترضعه، ويكون عندها، مطمئنة ساكنة، قريرة العين، فجعلوا يعرضون عليه المراضع، فلا يقبل ثديا.

Tafsir al-Muyassar

Salafi Approved
Committee of Saudi ScholarsArabic

وذلك حين ألهمْنا أمَّك: أن ضعي ابنك موسى بعد ولادته في التابوت، ثم اطرحيه في النيل، فسوف يلقيه النيل على الساحل، فيأخذه فرعون عدوي وعدوه. وألقيت عليك محبة مني فصرت بذلك محبوبًا بين العباد، ولِتربى على عيني وفي حفظي. وفي الآية إثبات صفة العين لله - سبحانه وتعالى - كما يليق بجلاله وكماله.

Tafsir Ibn Kathir

Salafi Approved
Hafiz Ibn KathirArabic

هذا إجابة من الله لرسوله موسى عليه السلام فيما سأل من ربه عز وجل وتذكير له بنعمه السالفة عليه فيما كان من أمر أمه حين كانت ترضعه وتحذر عليه من فرعون وملئه أن يقتلوه لأنه كان قد ولد في السنة التي يقتلون فيهاالغلمان فاتخذت له تابوتا فكانت ترضعه ثم تضعه فيه وترسله في البحر وهوالنيل وتمسكه إلى منزلها بحبل فذهبت مرة لتربط الحبل فانفلت منها وذهب به البحر فحصل لها من الغم والهم ما ذكره الله عنها في قوله وأصبح فؤاد أم موسى فارغا إن كانت لتبدى به لولا أن ربطنا على قلبها" فذهب به البحر إلى دار فرعون فالتقطه آل فرعون ليكون لهم عدوا وحزنا" أي قدرا مقدورا من الله حيث كانوا هم يقتلون الغلمان من بني إسرائيل حذرا من وجود موسى فحكم الله وله السلطان العظيم والقدرة التامة أن لا يربى إلا على فراش فرعون ويغذى بطعامه وشرابه مع محبته وزوجته له.

Tafsir Ibn Kathir

Ismail ibn KathirEnglish

Glad Tidings of the acceptance of Musa's Supplication and the Reminder of the Previous Blessings This is a response from Allah to His Messenger, Musa, for what he requested from His Lord. It also contains a reminder of Allah's previous favors upon him. The first was inspiring his mother when she was breastfeeding him and she feared that Fir`awn and his chiefs would kill him. Musa was born during a year in which they (Fir`awn's people) were killing all of the male children. So she placed him in a case and cast him into the river. The river carried him away and she became grieved and distressed, as Allah mentioned about her when He said, وَأَصْبَحَ فُؤَادُ أُمِّ مُوسَى فَارِغاً إِن كَادَتْ لَتُبْدِى بِهِ لَوْلا أَن رَّبَطْنَا عَلَى قَلْبِهَا (And the heart of the mother of Musa became empty. She was very near to disclose his (case) had We not strengthened her heart.) 28:10 So the river carried him to the home of Fir`awn. فَالْتَقَطَهُ ءَالُ فِرْعَوْنَ لِيَكُونَ لَهُمْ عَدُوّاً وَحَزَناً (Then the people of Fir`awn picked him up, that he might become for them an enemy and a (cause of ) grief.) 28:8 Means that this was a destined matter, decreed by Allah. They were killing the male children of the Israelites for fear of Musa's arrival. Therefore, with Allah having the great authority and the most perfect power, He determined that Musa would not be raised except upon Fir`awn's own bed. He would be sustained by Fir`awn's food and drink, while receiving the love of Fir`awn and his wife. This is why Allah said, يَأْخُذْهُ عَدُوٌّ لِّى وَعَدُوٌّ لَّهُ وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّى (and there, an enemy of Mine and an enemy of his shall take him. And I endued you with love from Me,) This means that I made your enemy love you. Salamah bin Kuhayl said, وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّى (And I endued you with love from Me,) "This means, `I made My creatures love you.' " وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِى (in order that you may be brought up under My Eye.) Abu `Imran Al-Jawni said, "This means, `You will be raised under Allah's Eye.' " Concerning Allah's statement, إِذْ تَمْشِى أُخْتُكَ فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى مَن يَكْفُلُهُ فَرَجَعْنَـكَ إِلَى أُمِّكَ كَى تَقَرَّ عَيْنُها (When your sister went and said: `Shall I show you one who will nurse him' So We restored you to your mother, that she might cool her eyes) When he was accepted into the house of Fir`awn, women were brought in attempts to find someone who might be able to nurse him. But he refused to breast feed from any of them. Allah, the Exalted, says, وَحَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِن قَبْلُ (And We had already forbidden (other) foster suckling mothers for him) 28:12 Then, his sister came and said, هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى أَهْلِ بَيْتٍ يَكْفُلُونَهُ لَكُمْ وَهُمْ لَهُ نَـصِحُونَ (Shall I direct you to a household who will rear him for you, and look after him in a good manner) 28:12 She meant, "Shall I guide you to someone who can nurse him for you for a fee" So she took him and they went with her to his real mother. When her breast was presented to him, he took it and they (Fir`awn's family) were extremely happy for this. Thus, they hired her to nurse him and she achieved great happiness and comfort because of him, in this life and even more so in the Hereafter. Allah, the Exalted, says here, فَرَجَعْنَـكَ إِلَى أُمِّكَ كَى تَقَرَّ عَيْنُها وَلاَ تَحْزَنَ (So We restored you to your mother, that she might cool her eyes and she should not grieve.) This means that she should not grieve over you. وَقَتَلْتَ نَفْساً (Then you killed man,) This means that he killed a Coptic person (the people of Egypt, Fir`awn's people). فَنَجَّيْنَـكَ مِنَ الْغَمِّ (but We saved you from great distress) This is what he was feeling due to Fir`awn's family intending to kill him. So he fled from them until he came to the water of the people of Madyan. This is when the righteous man said to him, لاَ تَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّـلِمِينَ (Fear you not. You have escaped from the people who are wrongdoers.) 28:25

Tafsir Ibn Kathir

Salafi Approved
Hafiz Ibn KathirUrdu

ادھر فرعون کے پاس شکایت ہوئی کہ ایک قبطی کو کسی بنی اسرأیل نے مار ڈالا ہے فرعون نے حکم جاری کردیا کہ واقعہ کی پوری تحقیق کرو قاتل کو تلاش کر کے پکڑ لاؤ اور گواہ بھی پیش کرو اور جرم ثابت ہوجانے کی صورت میں اسے بھی قتل کردو۔ پولیس نے ہرچند تفتیش کی لیکن قاتل کا کوئی سراغ نہ ملا۔ اتفاق کی بات کہ دوسرے ہی دن حضرت موسیٰ ؑ پھر کہیں جا رہے تھے کہ دیکھا وہی بنی اسرائیلی شخص ایک دوسرے فرعونی سے جھگڑ رہا ہے۔ موسیٰ ؑ کو دیکھتے ہی وہ دہائی دینے لگا لیکن اس نے یہ محسوس کیا کہ شاید موسیٰ ؑ اپنے کل کے فعل سے نادم ہیں۔ حضرت موسیٰ ؑ کو بھی اس کا یہ بار بار کا جھگڑنا اور فریاد کرنا برا معلوم ہوا اور کہا تم تو بڑے لڑاکا ہو یہ فرما کر اس فرعونی کو پکڑنا چاہا لیکن اس اسرائیلی بزدل نے سمجھا کہ شاید آپ چونکہ مجھ پر ناراض ہیں مجھے ہی پکڑنا چاہتے ہیں حالانکہ اس کا یہ صرف بزدلانہ خیال تھا آپ تو اسی فرعونی کو پکڑنا چاہتے تھے اور اسے بچانا چاہتے تھے لیکن خوف و ہراس کی حالت میں بےساختہ اس کے منہ سے نکل گیا کہ موسیٰ ؑ جیسے کہ کل تو نے ایک آدمی کو مار ڈالا تھا کیا آج مجھے مار ڈالنا چاہتا ہے یہ سن کر وہ فرعونی اسے چھوڑ بھاگا، دوڑا گیا۔ اور سرکاری سپاہی کو اس واقعہ کی خبر کردی فرعون کو بھی قصہ معلوم ہوا اسی وقت جلادوں کو حکم دیا کہ موسیٰ ؑ کو پکڑ کر قتل کردو۔ یہ لوگ شارع عام سے آپ کی جستجو میں چلے ادھر ایک بنی اسرائیلی نے راستہ کاٹ کر نزدیک کے راستے سے آ کر موسیٰ ؑ کو خبر کردی۔ اے ابن جبیر یہ ہے پانچواں فتنہ۔ حضرت موسیٰ ؑ یہ سنتے ہی مٹھیاں بند کر کے مصر سے بھاگ کھڑے ہوئے نہ کبھی پیدل چلے تھے نہ کبھی کسی مصیبت میں پھنسے تھے شہزادوں کی طرح لاڈ چاؤ میں پلے تھے نہ راستے کی خبر تھی نہ کبھی سفر کا اتفاق پڑا تھا رب پر بھروسہ کر کے یہ دعا کر کے اے اللہ مجھے سیدھی راہ لے چلنا چل کھڑے ہوئے یہاں تک کہ مدین کی حدود میں پہنچے۔ یہاں دیکھا کہ لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے ہیں وہیں دو لڑکیوں کو دیکھا کہ اپنے جانوروں کو روکے کھڑی ہیں پوچھا کہ تم ان کے ساتھ اپنے جانوروں کو پانی کیوں نہیں پلا لیتیں ؟ الگ کھڑی ہوئی انہیں کیوں روک رہی ہو ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس بھیڑ میں ہمارے بس کی بات نہیں کہ اپنے جانوروں کو پانی پلائیں ہم تو جب یہ لوگ پانی پلا چکتے ہیں ان کا بقیہ اپنے جانوروں کو پلا دیا کرتی ہیں آپ فوراً آگے بڑھے اور ان کے جانوروں کو پانی پلا دیا۔ چونکہ بہت جلد پانی کھینچا آپ بہت قوی آدمی تھی سب سے پہلے ان کے جانوروں کو سیر کردیا۔ یہ اپنی بکریاں لے کر اپنے گھر روانہ ہوئیں اور آپ ایک درخت کے سائے تلے بیٹھ گئے اور اللہ سے دعا کرنے لگے کہ پروردگار میں تیری تمام تر مہربانیوں کا محتاج ہوں یہ دونوں لڑکیاں جب اپنے والد کے پاس پہنچیں تو انہوں نے کہا آج کیا بات ہے کہ تم وقت سے پہلے ہی آگئیں ؟ اور بکریاں بھی خوب آسودہ اور شکم سیر معلوم ہوتی ہیں تو ان بچیوں نے سارا واقعہ کہہ سنایا آپ نے حکم دیا کہ تم میں سے ایک ابھی چلی جائے اور انہیں میرے پاس بلا لائے۔ وہ آئیں اور حضرت موسیٰ ؑ کو اپنے والد صاحب کے پاس لے گئیں انہوں نے سرسری ملاقات کے بعد واقعہ پوچھا تو آپ نے سارا قصہ کہہ سنایا اس پر وہ فرمانے لگے اب کوئی ڈر کی بات نہیں آپ ان ظالموں سے چھوٹ گئے۔ ہم لوگ فرعون کی رعایا نہیں نہ ہم پر اس کا کوئی دباؤ ہے اسی وقت ایک لڑکی نے اپنے باپ سے کہا کہ ابا جی انہوں نے ہمارا کام کردیا ہے اور یہ ہیں بھی قوت والے امانت دار شخص کیا اچھا ہو کہ آپ انہیں اپنے ہاں مقرر کرلیجئے کہ یہ اجرت پر ہماری بکریاں چرا لایا کریں۔ باپ کو غیرت اور غصہ آگیا اور پوچھا بیٹی تمہیں یہ کیسے معلوم ہوگیا کہ یہ قوی اور امین ہیں۔ بچی نے جواب دیا کہ قوت تو اس وقت معلوم ہوئی جب انہوں نے ہماری بکریوں کے لئے پانی نکالا اتنے بڑے ڈول کو اکیلے ہی کھینچتے تھے اور بڑی پھرتی اور ہرپن سے۔ امانت داری یوں معلوم ہوئی کہ میری آواز سن کر انہوں نے نظر اونچی کی اور جب یہ معلوم ہوگیا کہ میں عورت ہوں پھر نیچی گردن کر کے میری باتیں سنتے رہے واللہ آپ کا پورا پیغام پہنچانے تک انہوں نے نگاہ اونچی نہیں کی۔ پھر مجھ سے فرمایا کہ تم میرے پیچھے رہو مجھے دور سے راستہ بتادیا کرنا یہ بھی دلیل ہے ان کی اللہ خوفی اور امانت داری کی۔ باپ کی غیرت و حمیت بھی رہ گئی بچی کی طرف سے بھی دل صاف ہوگیا اور حضرت موسیٰ ؑ کی محبت دل میں سما گئی۔ اب حضرت موسیٰ ؑ سے فرمانے لگے میرا ارادہ ہے کہ اپنی ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح آپ کے ساتھ کردوں اس شرط پر کہ آپ آٹھ سال تک میرے ہاں کام کاج کرتے رہیں ہاں اگر دس سال تک کریں تو اور بھی اچھا ہے انشاء اللہ آپ دیکھ لیں گے کہ میں بھلا آدمی ہوں۔ چناچہ یہ معاملہ طے ہوگیا اور اللہ کے پیغمبر ؑ نے بجائے آٹھ سال کے دس سال پورے کئے۔ حضرت سعید بن جبیر ؓ فرماتے ہیں پہلے مجھے یہ معلوم نہ تھا اور ایک نصرانی عالم مجھ سے یہ پوچھ بیٹھا تھا تو میں اسے کوئی جواب نہ دے سکا پھر جب میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے پوچھا اور آپ نے جواب دیا تو میں نے اس سے ذکر کیا اس نے کہا تمہارے استاد بڑے عالم ہیں۔ میں نے کہا ہاں ہیں ہی۔ اب موسیٰ ؑ اس مدت کو پوری کر کے اپنی اہلیہ صاحبہ کو لئے ہوئے یہاں سے چلے۔ پھر وہ واقعات ہوئے جن کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ آگ دیکھی، گئے، اللہ سے کلام کیا، لکڑی کا اژدھا بننا، ہاتھ کا نورانی بننا ملاحظہ کیا، نبوت پائی، فرعون کی طرف بھیجے گئے تو قتل کے واقعہ کے بدلے کا اندیشہ ظاہر فرمایا۔ اس سے اطمینان حاصل کر کے زبان کی گرہ کشائی کی طلب کی۔ اس کو حاصل کر کے اپنے بھائی ہارون کی ہمدردی اور شرکت کار چاہی۔ یہ بھی حاصل کر کے لڑکی لئے ہوئے شاہ مصر کی طرف چلے۔ ادھر حضرت ہارون ؑ کے پاس وحی پہنچی کہ اپنے بھائی کی موافقت کریں اور ان کا ساتھ دیں۔ دونوں بھائی ملے اور فرعون کے دربار میں پہنچے۔ اطلاع کرائی بڑی دیر میں اجازت ملی، اندر گئے فرعون پر ظاہر کیا کہ ہم اللہ کے رسول بن کر تیرے پاس آئے ہیں۔ اب جو سوال جواب ہوئے وہ قرآن میں موجود ہیں۔ فرعون نے کہا اچھا تم چاہتے کیا ہو اور واقعہ قتل یاد دلایا جس کا عذر حضرت موسیٰ ؑ نے بیان کیا جو قرآن میں موجود ہے اور کہا ہمارا ارادہ یہ ہے کہ تو ایمان لا اور ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے رہائی دے۔ اس نے انکار کیا اور کہا کہ اگر سچے ہو تو کوئی معجزہ دکھاؤ آپ نے اسی وقت اپنی لکڑی زمین پر ڈال دی وہ زمین پر پڑتے ہی ایک زبردست خوفناک اژدھے کی صورت میں منہ پھاڑے کچلیاں نکالے فرعون کی طرف لپکا مارے خوف کے فرعون تخت سے کود گیا اور بھاگتا ہوا عاجزی سے فریاد کرنے لگا کہ موسیٰ ؑ اللہ کے واسطے اسے پکڑ لو۔ آپ نے ہاتھ لگایا اسی وقت لاٹھی اپنی اصلی حالت میں آگئی۔ پھر آپ نے اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال کر نکالا تو وہ بغیر کسی مرض کے داغ کے چمکتا ہوا نکلا جسے دیکھ کر وہ حیران ہوگیا آپ نے پھر ہاتھ ڈال کر نکالا تو وہ اپنی اصلی حالت میں تھا۔ اب فرعون نے اپنے درباریوں کی طرف دیکھ کر کہا کہ تم نے دیکھا یہ دونوں جادوگر ہیں چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہارے ملک سے نکال باہر کریں اور تمہارے ملک پر قابض ہو کر تمہارے طریقے مٹا دیں۔ پھر حضرت موسیٰ ؑ سے کہا کہ ہمیں آپ کی نبوت ماننے سے بھی انکار ہے اور آپ کا کوئی مطالبہ بھی ہم پورا نہیں کرسکتے بلکہ ہم اپنے جادوگروں کو تمہارے مقابلہ کے لئے بلا رہے ہیں جو تمہارے اس جادو پر غالب آجائیں گے چناچہ یہ لوگ اپنی کوششوں میں مشغول ہوگئے۔ تمام ملک سے جادوگروں کو بڑی عزت سے بلوایا جب سب جع ہوگئے تو انہوں نے پوچھا کہ اسکا جادو کسی قسم کا ہے ؟ فرعون والوں نے کہا لکڑی کا سانپ بنا دیتا ہے انہوں نے کہا اس میں کیا ہے ہم لکڑیوں کی رسیوں کے وہ سانپ بنائیں گے کہ روئے زمین پر ان کا کوئی مقابلہ نہ کرسکے۔ لیکن ہمارے لئے انعام مقرر ہوجانا چاہئے فرعون نے ان سے قول وقرار کیا کہ انعام کیسا ؟ میں تو تمہیں اپنا مقرب خاص اور درباری بنا لوں گا اور تمہیں نہال نہال کر دونگا جو مانگو گے پاؤ گے۔ چناچہ انہوں نے اعلان کردیا کہ عید کے روز دن چڑھے فلاں میدان میں مقابلہ ہوگا۔ مروی ہے کہ ان کی یہ عید عاشورا کے دن تھی اس دن تمام لوگ صبح ہی صبح اس میدان میں پہنچ گئے کہ آج چل کر دیکھیں گے کہ کون غالب آتا ہے ہم تو جادوگروں کے کمالات کے قائل ہیں وہی غالب آئیں گے اور ہم انہی کی مانیں گے۔ مذاق سے اس بات کو بدل کر کہتے تھے کہ چلو انہی دونوں جادوگروں کے مطیع بن جائیں گے اگر وہ غالب رہیں۔ میدان میں آ کر جادوگروں نے انبیاء اللہ سے کہا کہ لو اب بتاؤ تم پہلے اپنا جادو ظاہر کرتے ہو یا ہم ہی شروع کریں ؟ آپ نے فرمایا تم ہی ابتدا کرو تاکہ تمہارے ارمان پورے ہوں۔ اب انہوں نے اپنی لکڑیاں اور رسیاں میدان میں ڈالیں وہ سب سانپ اور بلائیں بن کر اللہ کے نبیوں کی طرف دوڑیں جس سے خوفزدہ ہو کر آپ پیچھے ہٹنے لگے اس وقت اللہ کی وحی آئی کہ آپ اپنی لکڑی زمین پر ڈال دیجئے آپ نے ڈالدی وہ ایک خوفناک بھیانک عظیم الشان اژدھا بن کر ان کی طرف دوڑا یہ لکڑیاں رسیاں سب گڈ مڈ ہوگئیں اور وہ ان سب کو نگل گیا۔ جادوگر سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں یہ تو سچ مچ اللہ کیطرف کا نشان ہے جادو میں یہ بات کہاں ؟ چناچہ سب نے اپنے ایمان کا اعلان کردیا کہ ہم موسیٰ کے رب پر ایمان لائے اور ان دونوں بھائیوں کی نبوت ہمیں تسلیم ہے۔ ہم اپنے گزشتہ گناہوں سے توبہ کرتے ہیں۔ فرعون اور فرعونیوں کی کمر ٹوٹ گئی، رسوا ہوئے، منہ کالے پڑگئے، ذلت کے ساتھ خاموش ہوگئے۔ خون کے گھونٹ پی کر چپ ہوگئے۔ ادھر یہ ہو رہا تھا ادھر فرعون کی بیوی صاحبہ ؓ جنہوں نے حضرت موسیٰ ؑ کو اپنے سگے بچے کی طرح پالا تھا، بےقرار بیٹھی تھیں اور اللہ سے دعائیں مانگ رہی تھیں کہ اللہ ذولجلال اپنے نبی کو غالب کرے فرعونیوں نے بھی اس حال کو دیکھا تھا لیکن انہوں نے خیال کیا کہ اپنے خاوند کی طرفداری میں ان کا یہ حال ہے یہاں سے ناکام واپس جانے پر فرعون نے بےایمانی پر کمر باندھ لی۔ اللہ کی طرف سے حضرت موسیٰ ؑ کے ہاتھوں بہت سے نشانات ظاہر ہوئے۔ جب کبھی کوئی پکڑ آجاتی یہ گھبرا کر بلکہ گڑ گڑا کر وعدہ کرتا کہ اچھا اس مصیبت کے ہٹ جانے پر میں بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ کر دونگا لیکن جب عذاب ہٹ جاتا پھر منکر بن کر سرکشی پر آجاتا اور کہتا تیرا رب اس کے سوا کچھ اور بھی کرسکتا ہے ؟ چناچہ ان پر طوفان آیا۔ ٹڈیاں آئیں، جوئیں آئیں، مینڈک آئے، خون آیا اور بھی بہت سی صاف صاف نشانیاں دیکھیں۔ جاں آفت آئی، ڈرا، وعدہ کیا۔ جہاں وہ ٹل گئی مکر گیا اور اکڑ گیا۔ اب اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ بنی اسرائیل کو لے کر یہاں سے نکل جاؤ آپ راتوں رات انہیں لے کر روانہ ہوگئے۔ صبح فرعونیوں نے دیکھا کہ رات کو سارے بنی اسرائیل چلے گئے ہیں۔ انہوں نے فرعون سے کہا اس نے سارے ملک میں احکام بھیج کر ہر طرف سے فوجیں جمع کیں اور بہت بڑی جمعیت کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ راستے میں جو دریا پڑتا تھا اس کی طرف اللہ کی وحی پہنچی کہ تجھ پر جب میرے بندے موسیٰ ؑ کی لکڑی پڑے تو تو انہیں راستہ دے دینا۔ تجھ میں بارہ راستے ہوجائیں کہ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے الگ الگ اپنی راہ لگ جائیں۔ پھر جب یہ پار ہوجائیں اور فرعونی آجائیں تو تو مل جانا اور ان میں سے ایک کو بھی بےڈبوئے نہ چھوڑنا۔ موسیٰ ؑ جب دریا پر پہنچے دیکھا کہ وہ موجیں مار رہا ہے پانی چڑھا ہوا ہے شور اٹھ رہا ہے گھبرا گئے اور لکڑی مارنا بھول گئے دریا بےقرار یوں تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو اس کے کسی حصے پر حضرت موسیٰ ؑ لکڑی مار دیں اور اسے خبر نہ ہو تو عذاب الٰہی میں بہ سبب اللہ کی نافرمانی کے پھنس جائے۔ اتنے میں فرعون کا لشکر بنی اسرائیل کے سر پر جا پہنچا یہ گھبرا گئے اور کہنے لگے لو موسیٰ ہم تو پکڑ لئے گئے اب آپ وہ کیجئے جو اللہ کا آپ کو حکم ہے یقیناً نہ تو اللہ جھوٹا ہے نہ آپ۔ آپ نے فرمایا مجھے سے تو یہ فرمایا گیا ہے کہ جب تو دریا پر پہنچے گا وہ تجھے بارہ راستے دے دے گا تو گزر جانا۔ اسی وقت یاد آیا کہ لکڑی مارنے کا حکم ہوا ہے۔ چناچہ لکڑی ماری ادھر فرعونی لشکر کا اول حصہ بنی اسرائیل کے آخری حصے کے پاس آچکا تھا کہ دریا خشک ہوگیا اور اس میں راستے نمایاں ہوگئے اور آپ اپنی قوم کو لئے ہوئے اس میں بےخطر اتر گئے اور با آرام جانے لگے جب یہ نکل چکے فرعونی سپاہ ان کے تعاقب میں دریا میں اتری جب یہ سارا لشکر اس میں اتر گیا تو فرمان الٰہی کے مطابق دریا رواں ہوگیا اور سب کو بیک وقت غرق کردیا بنو اسرایئل اس واقعہ کو اپنی آنکھوں دیکھ رہے تھے تاہم انہوں نے کہا کہ اے رسول اللہ ہمیں کیا خبر کہ فرعون بھی مرا یا نہیں ؟ آپ نے دعا کی اور دریا نے فرعون کی بےجان لاش کو کنارے پر پھینک دیا۔ جسے دیکھ کر انہیں یقین کامل ہوگیا کہ ان کا دشمن مع اپنے لاؤ لشکر کے تباہ ہوگیا۔ فرعون سے نجات کے بعد بنی اسرائیل کی نافرمانیاں۔ اب یہاں سے آگے چلے تو دیکھا کہ ایک قوم اپنے بتوں کی مجاور بن کر بیٹھی ہے تو کہنے لگے اے اللہ کے رسول ہمارے لئے بھی کوئی معبود ایسا ہی مقرر کر دیجئے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے ناراض ہو کر کہا کہ تم بڑے ہی جاہل لوگ ہو الخ، تم نے اتنی بڑی عبرتناک نشانیاں دیکھیں ایسے اہم واقعات سنے لیکن اب تک نہ عبرت ہے نہ غیرت۔ یہاں سے آگے بڑھ کر ایک منزل پر آپ نے قیام کیا اور یہاں اپنا خلیفہ اپنے بھائی حضرت ہارون ؑ کو بنا کر قوم سے فرمایا کہ میری واپسی تک ان کی فرمانبرداری کرتے رہنا میں اپنے رب کے پاس جا رہا ہوں۔ تیس دن کا اس کا وعدہ ہے۔ چناچہ قوم سے الگ ہو کر وعدے کی جگہ پہنچ کر تیس دن رات کے روزے پورے کر کے اللہ سے باتیں کرنے کا دھیان پیدا ہوا لیکن یہ سمجھ کر کہ روزوں کی وجہ سے منہ سے بھبکا نکل رہا ہوگا تھوڑی سی گھاس لے کر آپ نے چبا لی۔ اللہ تعالیٰ نے باوجود علم کے دریافت فرمایا کہ ایسا کیوں کیا ؟ آپ نے جواب دیا صرف اس لئے کہ تجھ سے باتیں کرتے وقت میرا منہ خوشبودار ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تجھے معلوم نہیں کہ روزہ دار کے منہ کی بو مجھے مشک و عنبر کی خوشبو سے زیادہ اچھی لگتی ہے اب تو دس روزے اور رکھ پھر مجھ سے کلام کرنا۔ آپ نے روزے رکھنا شروع کردیئے۔ قوم پر تیس دن جب گزر گئے اور حسب وعدہ حضرت موسیٰ ؑ نہ لوٹے تو وہ غمگین رہنے لگے حضرت ہارون ؑ نے ان میں خطبہ کیا اور فرمایا کہ جب تم مصر سے چلے تھے تو قبطیوں کی رقمیں تم میں سے بعض پر ادھار تھیں اسی طرح ان کی امانتیں بھی تہارے پاس رہ گئی ہیں یہ ہم انہیں واپس تو کرنے کے نہیں لیکن میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ وہ ہماری ملکیت میں رہیں اس لئے تم ایک گہرا گڑھا کھودو اور جو اسباب برتن بھانڈا زیور سونا چاندی وغیرہ ان کا تمہارے پاس ہے سب اس میں ڈالو پھر آگ لگا دو۔ چناچہ یہی کیا گیا ان کے ساتھ سامری نامی ایک شخص تھا یہ گائے بچھڑے پوجنے والوں میں سے تھا بنی اسرائیل میں سے نہ تھا لیکن بوجہ پڑوسی ہونے کے اور فرعون کی قوم میں سے نہ ہونے کے یہ بھی ان کے ساتھ وہاں سے نکل آیا تھا اس نے کسی نشان سے کچھ مٹھی میں اٹھا لیا تھا۔ حضرت ہارون ؑ نے فرمایا تو بھی اسے ڈال دے اس نے جواب دیا کہ یہ تو اس کے اثر سے ہے جو تمہیں دریا سے پار کرا لے گیا۔ خیر میں اسے ڈال دیتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ آپ اللہ سے دعا کریں کہ اس سے وہ بن جائے جو میں چاہتا ہوں۔ آپ نے دعا کی اور اس نے اپنی مٹھی میں جو تھا اسے ڈال دیا اور کہا میں چاہتا ہوں اس کا ایک بچھڑا بن جائے۔ قدرت الٰہی سے اس گڑھے میں جو تھا وہ ایک بچھڑے کی صورت میں ہوگیا جو اندر سے کھوکھلا تھا اس میں روح نہ تھی لیکن ہوا اس کے پیچھے کے سوراخ سے جا کر منہ سے نکلتی تھی اس سے ایک آواز پیدا ہوتی تھی۔ بنو اسرائیل نے پوچھا سامری یہ کیا ہے ؟ اس بےایمان نے کہا یہی تمہارا سب کا رب ہے لیکن موسیٰ ؑ راستہ بھول گئے اور دوسری جگہ رب کی تلاش میں چلے گئے۔

Additional Authentic Tafsir Resources

Access comprehensive classical Tafsir works recommended by scholars, available online for free

Tafsir Ibn Kathir

The greatest of tafseers - interprets Quran with Quran, Sunnah, Salaf statements, and Arabic

Complete EnglishMost Authentic

Tafsir As-Sa'di

Excellent tafsir by Shaykh Abdur-Rahman As-Sa'di - simple expressions with tremendous knowledge

Complete 10 VolumesSimple & Clear

Tafsir At-Tabari

Comprehensive and all-inclusive tafsir by Ibn Jarir At-Tabari - earliest major running commentary

Abridged EnglishComprehensive

Tafsir Al-Baghawi

Trustworthy classical tafsir - Ma'alim al-Tanzil by Al-Husayn ibn Mas'ud al-Baghawi

Partial EnglishClassical

Scholarly Recommendation: These four tafseers are highly recommended by scholars. Tafsir Ibn Kathir is considered the greatest for its methodology of interpreting Quran with Quran, then Sunnah, then Salaf statements, and finally Arabic language. Tafsir As-Sa'di is excellent for its clarity and simple expressions. All sources are authentic and freely accessible.

Hadith References

Access authentic hadith references and scholarly commentary linked to this verse from trusted Islamic sources

Opens interactive viewer with embedded content from multiple sources

Quick Links to External Sources:

💡 Tip: Click "View Hadith References" to see embedded content from multiple sources in one place. External links open in new tabs for direct access.

Additional Tafsir Resources (Altafsir.com)

Access 7+ classical tafsir commentaries and historical context from the Royal Aal al-Bayt Institute

Classical Tafsir Commentaries:

Links open in a new tab. Content provided by the Royal Aal al-Bayt Institute for Islamic Thought.

Islamic Nexus - Quran, Hadith, Islamic Books & Resources