Ayah Study
Surah Ash-Sharh (سُورَةُ الشَّرۡحِ), Verse 6
Ayah 6096 of 6236 • Meccan
إِنَّ مَعَ ٱلْعُسْرِ يُسْرًۭا
Translations
The Noble Quran
EnglishVerily, along with every hardship is relief (i.e. there is one hardship with two reliefs, so one hardship cannot overcome two reliefs).
Muhammad Asad
Englishverily, with every hardship comes ease!
Fatah Muhammad Jalandhari
Urdu(اور) بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے
Tafsir (Commentary)
Tafsir al-Sa'di
Salafi Approved{ فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا } بشارة عظيمة، أنه كلما وجد عسر وصعوبة، فإن اليسر يقارنه ويصاحبه، حتى لو دخل العسر جحر ضب لدخل عليه اليسر، فأخرجه كما قال تعالى: { سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا } وكما قال النبي صلى الله عليه وسلم: \" وإن الفرج مع الكرب، وإن مع العسر يسرا \" .وتعريف \" العسر \" في الآيتين، يدل على أنه واحد، وتنكير \" اليسر \" يدل على تكراره، فلن يغلب عسر يسرين.وفي تعريفه بالألف واللام، الدالة على الاستغراق والعموم يدل على أن كل عسر -وإن بلغ من الصعوبة ما بلغ- فإنه في آخره التيسير ملازم له
Tafsir al-Muyassar
Salafi Approvedفلا يثنك أذى أعدائك عن نشر الرسالة؛ فإن مع الضيق فرجًا، إن مع الضيق فرجًا.
Tafsir Ibn Kathir
Salafi Approvedإن مع العسر يسراوقوله تعالى " فإن مع العسر يسرا إن مع العسر يسرا " أخبر تعالى أن مع العسر يوجد اليسر ثم أكد هذا الخبر . قال ابن أبي حاتم حدثنا أبو زرعة حدثنا محمود بن غيلان حدثنا حميد بن حماد بن أبي خوار أبو الجهم حدثنا عائذ بن شريح قال سمعت أنس بن مالك يقول : كان النبي صلى الله عليه وسلم جالسا وحياله حجر فقال " لو جاء العسر فدخل هذا الحجر لجاء اليسر حتى يدخل عليه فيخرجه " فأنزل الله عز وجل " فإن مع العسر يسرا إن مع العسر يسرا" ورواه أبو بكر البزار في مسنده عن محمد بن معمر عن حميد بن حماد به ولفظه " لو جاء العسر حتى يدخل هذا الحجر لجاء اليسر حتى يخرجه ثم قال " فإن مع العسر يسرا إن مع العسر يسرا" ثم قال البزار لا نعلم رواه عن أنس إلا عائذ بن شريح " قلت " وقد قال فيه أبو حاتم الرازي في حديثه ضعف ولكن رواه شعبة عن معاوية بن قرة عن رجل عن عبد الله بن مسعود موقوفا وقال ابن أبي حاتم حدثنا الحسن بن محمد بن الصباح حدثنا أبو قطن حدثنا المبارك بن فضالة عن الحسن قال كانوا يقولون لا يغلب عسر واحد يسرين اثنين. وقال ابن جرير حدثنا ابن عبد الأعلى حدثنا ابن ثور عن معمر عن الحسن قال : خرج النبي صلى الله عليه وسلم يوما مسرورا فرحا وهو يضحك وهو يقول " لن يغلب عسر يسرين لن يغلب عسر يسرين" فإن مع العسر يسرا إن مع العسر يسرا " وكذا رواه من حديث عوف الأعرابي ويونس بن عبيد عن الحسن مرسلا وقال سعيد عن قتادة ذكر لنا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بشر أصحابه بهذه الآية . فقال " لن يغلب عسر يسرين " ومعنى هذا أن العسر معرف في الحالين فهو مفرد واليسر منكر فتعدد ولهذا قال " لن يغلب عسر يسرين" يعني قوله " فإن مع العسر يسرا إن مع العسر يسرا " فالعسر الأول عين الثاني واليسر تعدد. وقال الحسن بن سفيان حدثنا يزيد بن صالح حدثنا خارجة عن عباد بن كثير عن أبي الزناد عن أبي صالح عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " أنزل المعونة من السماء على قدر المؤنة ونزل الصبر على قدر المصيبة " ومما يروى عن الشافعي أنه قال : صبرا جميلا ما أقرب الفرجا من راقب الله في الأمور نجا من صدق الله لم ينله أذى ومن رجاه يكون حيث رجا وقال ابن دريد أنشدني أبو حاتم السجستاني : إذا اشتملت على اليأس القلوب وضاق لما به الصدر الرحيب وأوطأت المكاره واطمأنت وأرست في أماكنها الخطوب ولم تر لانكشاف الضر وجها ولا أغنى بحيلته الأريب أتاك على قنوط منك غوث يمن به اللطيف المستجيب وكل الحادثات إذا تناهت فموصول بها الفرج القريب وقال آخر ولرب نازلة يضيق بها الفتى ذرعا وعند الله منها المخرج كملت فلما استحكمت حلقاتها فرجت وكان يظنها لا تفرج .
Tafsir Ibn Kathir
Which was revealed in Makkah بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَـنِ الرَّحِيمِ In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful. The Meaning of opening the Breast Allah says, أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ (Have We not opened your breast for you) meaning, `have We not opened your chest for you.' This means, `We illuminated it, and We made it spacious, vast and wide.' This is as Allah says, فَمَن يُرِدِ اللَّهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلإِسْلَـمِ (And whomsoever Allah wills to guide, He opens his breast to Islam.) (6:125) And just as Allah expanded his chest, He also made His Law vast, wide, accommodating and easy, containing no difficulty, hardship or burden. A Discussion of Allah's Favor upon His Messenger Concerning Allah's statement, وَوَضَعْنَا عَنكَ وِزْرَكَ (And removed from you your burden.) This means لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ (That Allah may forgive you your sins of the past and the future.) (48:2) الَّذِى أَنقَضَ ظَهْرَكَ (Which weighed down your back) Al-Inqad means the sound. And more than one of the Salaf has said concerning Allah's saying, الَّذِى أَنقَضَ ظَهْرَكَ (Which weighed down your back) meaning, `its burden weighed heavy upon you.' The Meaning of raising the Fame of the Prophet (Peace be upon him) وَرَفَعۡنَا لَكَ ذِكۡرَكَ (And have We not raised high your fame?) Mujahid said, "I (Allah) am not remembered except that you are remembered with Me: I bear witness that there is no God worthy of worship except Allah, and that Muhammad ﷺ is the Messenger of Allah." Qatadah said , "Allah raised his fame in this life and in the Hereafter. There is no one who gives a sermon, declares the Testimony of Faith (Shahadah), or prays a prayer (Salah) except that he proclaims it: I bear witness that there is no God worthy of worship except Allah, and that Muhammad ﷺ is the Messenger of Allah. Ease after Difficulty إِنَّ مَعَ ٱلۡعُسۡرِ يُسۡرً۬ا • فَإِنَّ مَعَ ٱلۡعُسۡرِ يُسۡرًا (Verily along with every hardship is relief. Veriliy along with every hardship is relief) Allah informs that with difficulty there is ease, and then He reaffirms this information (by repeating it) The Command to remember Allah during Spare Time فَإِذَا فَرَغۡتَ فَٱنصَبۡ • وَإِلَىٰ رَبِّكَ فَٱرۡغَب ( So when you have finished, devote yourself to Allah's worship. And to your Lord turn intentions and hopes. ) Meaning, 'when you have completed your worldly affairs and its tasks, and you have broken away from its routine, then get up to perform the worship, and stand for it with zeal, complete devotion and purify your intention and desire for your lord.' Similar to this is the Prophet's statement in a hadith that is agreed-upon to be authentic, لَا صَلَاةَ بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ, وَلَا هُوَ يُدَافِعُهُ الأَخْبَثَانِ There is no prayer when the food is served, nor when the two foul things (excrement and urine) are pressing a person. The Prophet (صلى الله عليه و سلم) also said, إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ وَحَضَرَ الْعَشَاءُ فَبْدَأُوا بِااْلْعَشَاءِ When the prayer has started and the dinner has been served, then begin with dinner. Mujahid said concerning this Ayah, "When you are free from the worldly affairs, and you have stood to pray, then stand up for your Lord."
Tafsir Ibn Kathir
Salafi Approvedیعنی ہم نے تیرے سینے کو منور کردیا چوڑا کشادہ اور رحمت و کرم والا کردیا اور جگہ ہے فمن برد اللّٰہ الخ، یعنی جسے اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے اس کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔ جس طرح آپکا سینہ کشادہ کردیا گیا تھا۔ اسی طرح آپ کی شریعت بھی کشادگی والی نرمی اور آسانی والی بنادی، جس میں نہ تو کوئی حرج ہے نہ تنگی، نہ ترشی، نہ تکلیف، اور سختی، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد معراج والی رات سینے کا شق کیا جانا ہے۔ جیسے کہ مالک بن صعصعہ کی روایت سے پہلے گذرچکا، امام ترمذی نے اس حدیث کو یہیں وارد کیا ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہ دونوں واقعات مراد ہوسکتے ہیں یعنی معراج کی رات سینے کا شق کیا جانا اور سینہ کو راز اللہ کا گنجینہ بنادینا۔ واللہ اعلم۔ حضرت ابی بن کعب ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ ؓ بڑی دلیری سے رسول اللہ ﷺ سے وہ باتیں پوچھ لیا کرتے تھے جسے دوسرے نہ پوچھ سکتے تھے ایک مرتبہ سوال کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ امر نبوت میں سب سے پہلے آپ نے کیا دیکھا ؟ آپ سنبھل بیٹھے اور فرمانے لگے ابوہریرہ میں دس سال کچھ ماہ کا تھا جنگل میں کھڑا تھا کہ میں نے اوپر آسمان کی طرف سے کچھ آواز سنی کہ ایک شخص دوسرے سے کہہ رہا ہے کیا یہ وہی ہیں ؟ اب دو شخص میرے سامنے آئے جن کے منہ ایسے منور تھے کہ میں نے ایسے کبھی نہیں دیکھے اور ایسی خوشبو آرہی تھی کہ میرے دماغ نے ایسی خوشبو کبھی نہیں سونگھی اور ایسے کپڑے پہنے ہوئے تھے کہ میں نے کبھی کسی پر ایسے کپڑے نہیں دیکھے اور آکر انہوں نے میرے دونوں بازو تھام لئے لیکن مجھے یہ بھی نہیں معلوم ہوتا تھا کہ کوئی میرے بازو تھامے ہوئے ہے۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا کہ انہیں لٹا دو چناچہ اس نے لٹا دیا لیکن اس میں بھی نہ مجھے تکلیف ہوئی نہ برا محسوس ہوا۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا ان کا سینہ شق کرو چناچہ میرا سینہ چیر دیا لیکن نہ تو مجھے اس میں کچھ دکھ ہوا اور نہ میں نے خود دیکھا پھر کہا اس میں سے غل و غش، حسد و بغض سب نکال دو ، چناچہ اس نے ایک خون بستہ جیسی کوئی چیز نکالی اور اسے پھینک دیا پھر اس نے کہا اس میں رافت و رحمت رحم و کرم بھر دو پھر ایک چاندی جیسی چیز جتنی نکالی تھی اتنی ڈال دی پھر میرے دائیں پاؤں کا انگوٹھا ہلا کر کہا جائیے اور سلامتی سے زندگی گزارئیے اب میں چلا تو میں نے دیکھا کہ ہر چھوٹے پر میرے دل میں شفقت ہے اور ہر بڑے پر رحمت ہے (مسند احمد) پھر فرمان ہے کہ ہم نے تیرا بوجھ اتار دیا۔ یہ اسی معنی میں ہے کہ اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرمادئیے۔ جس بوجھ نے تیری کمر سے آواز نکلوا دی تھی یعنی جس نے تیری کمر کو بوجھل کردیا تھا۔ ہم نے تیرا ذکر بلند کیا۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں یعنی جہاں میرا ذکر کیا جائے گا وہاں تیرا ذکر کیا جائے گا جیسے اشہدان لا الہ اللہ واشہد ان محمد ارسول اللہ۔ قتادہ فرماتے ہیں کہ دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر بلند کردیا کوئی خطیب کوئی واعظ کوئی کلمہ گو کوئی نمازی ایسا نہیں جو اللہ کی وحدانیت کا اور آپ کی رسالت کا کلمہ نہ پڑھتا ہو۔ ابن جریر میں ہے کہ حضور ﷺ کے پاس حضرت جبرائیل آئے اور فرمایا کہ میرا اور آپ کا رب فرماتا ہے کہ میں آپ کا ذکر کس طرح بلند کروں ؟ آپ نے فرمایا اللہ ہی کو پورا علم ہے فرمایا جب میں ذکر کیا جاؤں تو آپ کا بھی ذکر کیا جائے گا، ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں میں نے اپنے رب سے ایک سوال کیا لیکن نہ کرتا تو اچھا ہوتا میں نے کہا اللہ مجھ سے پہلے نبیوں میں سے کسی کے لیے تو نے ہوا کو تابعدار کردیا تھا کسی کے ہاتھوں مردوں کو زندہ کردیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا کیا تجھے میں نے یتیم پا کر جگہ نہیں دی ؟ میں نے کہا بیشک فرمایا راہ گم کردہ پاکر میں نے تجھے ہدایت نہیں کی ؟ میں نے کہا بیشک فرمایا کیا فقیر پاکر غنی نہیں بنادیا ؟ میں نے کہا بیشک فرمایا کیا میں نے تیرا سینہ کھول نہیں دیا ؟ کیا میں نے تیرا ذکر بلند نہیں کیا ؟ میں نے کہا بیشک کیا ہے۔ ابو نعیم دلائل النبوۃ میں لائے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب میں فارغ ہوا اس چیز سے جس کا حکم مجھے میرے رب عزوجل نے کیا تھا آسمان اور زمین کے کام سے تو میں نے کہا اللہ مجھ سے پہلے جتنے انبیاء ہوئے اب سب کی تو نے تکریم کی، ابراہیم کو خلیل بنایا، موسیٰ کو کلیم بنایا داؤد کے لیے پہاڑوں کو مسخر کیا، سلیمان کے لیے ہواؤں اور شیاطین کو بھی تابعدار بنایا اور عیسیٰ کے ہاتھ پر مردے زندہ کرائے، پس میرے لیے کیا کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا میں نے تجھے ان سب سے افضل چیز نہیں دی کہ میرے ذکر کے ساتھ ہی تیرا ذکر بھی کیا جاتا ہے اور میں نے تیری امت کے سینوں کو ایسا کردیا کہ وہ قرآن کو قرأت سے پڑھتے ہیں۔ یہ میں نے کسی اگلی امت کو نہیں دیا اور میں نے تجھے اپنے عرش کے خزانوں میں سے خزانہ دیا جو لاحول ولا قوت الا باللہ العلی العظیم ہے ابن عباس اور مجاہد فرماتے ہیں کہ اس سے مر اس اذان ہے یعنی اذان میں آپ کا ذکر ہے جس طرح حضرت حسان کے شعروں میں ہے۔ اغر علیہ للنبوۃ خاتم من اللّٰہ من نور یلوح ویشھد وضم الالہ اسم النبی اسمہ اذا قال فی الخمس الموذن اشھد وشق لہ من اسمہ لیجلہ فذو العرش محمود وھذا محمد یعنی اللہ تعالیٰ نے مہر نبوت کو اپنے پاس کا ایک نور بنا کر آپ پر ثبت فرمایا جو آپ کی رسالت کی گواہ ہے اپنے نام کے ساتھ اپنے نبی کا نام ملا لیا جبکہ پانچویں وقت اشھد کہتا ہے آپ کی عزت و جلال کے اظہار کے لیے اپنے نام میں سے آپ کا نام نکالا دیکھو وہ عرش والا محمود ہے اور آپ محمد ہیں ﷺ اور لوگ کہتے ہیں کہ اگلوں پچھلوں میں اللہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر بلند کیا اور تمام انبیاء (علیہم السلام) سے روز میثاق میں عہد لیا گیا کہ وہ آپ پر ایمان لائیں اور اپنی اپنی امتوں کو بھی آپ پر ایمان لانے کا حکم کریں پھر آپ کی امت میں آپ کے ذکر کو مشہور کیا کہ اللہ کے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کیا جائے، صرصری نے کتنی اچھی بات بیان فرمائی ہے فرماتے ہیں کہ فرضوں کی اذان صحیح نہیں ہوتی مگر آپ کے پیارے اور میٹھے نام سے جو پسند یدہ اور اچھے منہ سے ادا ہو۔ اور فرماتے ہیں کہ تم نہیں دبکنے کہ ہماری اذان اور ہمارا فرض صحیح نہیں ہوتا جب تک کہ آپ کا ذکر باربار اس میں نہ آئے، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ تکرار اور تاکید کے ساتھ دو دو دفعہ فرماتا ہے کہ سختی کے ساتھ آسانی دشواری کے ساتھ سہولت ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے سامنے ایک پتھر تھا پس لوگوں نے کہا اور سختی آئے اور اس پتھر پر گھس جائے تو آسانی ہی آئے گی اور اسی میں جائے گی۔ اور اسے نکال لائے گی اس پر یہ آیت اتری۔ مسند بزار حم میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں کہا گردشواری اس پتھر میں داخل ہوجائے تو آسانی آکر اسے نکالے گی، پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی، یہ حدیث عائز بن شریح حضرت انس سے روایت کرتے ہیں اور ان کے بارے میں ابو حاتم راضی کا فیصلہ ہے کہ ان کی حدیث میں ضعف ہے اور ابن مسعود سے یہ موقوف مروی ہے۔ حضرت حسن فرماتے ہیں لوگ کہتے تھے کہ ایک سختی دو آسانیوں پر غالب نہیں آسکتی، حضرت حسن ابن جریر میں مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ ایک دن شادان اور فرحاں آئے اور ہنستے ہوئے فرمانے لگے ہرگز ایک دشواری پر دو نرمیوں پر غالب نہیں آسکتی۔ پھر اس آیت کی آپ نے تلاوت کی، یہ حدیث مرسل ہے۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کو خوش خبری سنائی کہ دو آسانیوں پر ایک سختی غالب نہیں آسکتی۔ مطلب یہ ہے کہ عسرہ کے لفظ کو تو دونوں جگہ معرفہ لائے ہیں تو وہ مفرد ہوا اور یسر کے لفظ کو نکرہ لائے ہیں تو وہ متعدد ہوگیا۔ ایک حدیث میں ہے کہ معونتہ یعنی امداد الٰہی بقدر معونتہ یعنی تکلیف کے آسمان سے نازل ہوتی ہے یعنی صبر مصیبت کی مقدار پر نازل ہوتا ہے حضرت امام شافعی فرماتے ہیں صبر اجمیلا ما اقرب الفرجا من راقب اللّٰہ فی الامر نجا من صدق اللّٰہ لم ینلہ اذی ومن رجاہ یکون حیث رجا یعنی اچھا صبر آسانیوں سے کیا ہی قریب ہے ؟ اپنے کاموں میں اللہ تعالیٰ لحاظ رکھنے والا، نجات یافتہ ہے، اللہ تعالیٰ کی باتوں کی تصدیق کرنے والے کو کوئی ایذاء نہیں پہنچتی اس سے بھلائی کی امید رکھنے والا اسے اپنی امید کے ساتھ ہی پاتا ہے۔ حضرت ابو حاتم سجستانی ؒ کے اشعار ہیں کہ جب مایوسی دل پر قبضہ کرلیتی ہے اور سینہ باوجود کشادگی کے تنگ ہوجاتا ہے تکلیفیں گھیر لیتی ہیں اور مصیبتیں ڈیرہ جما لیتی ہیں کوئی چارہ سجھائی نہیں دیتا اور کوئی تدبیر نجات کارکردگی نہیں ہوتی اس وقت اچانک اللہ کی مدد آپہنچتی ہے۔ اور وہ دعاؤں کا سننے والا باریک بین اللہ اس سختی کو آسانی سے اور اس تکلیف کو راحت میں بدل دیتا ہے۔ تنگیاں جب کہ بھر پور آپڑی ہیں پروردگار معا وسعتیں نازل فرما کر نقصن کو فائدے سے بدل دیتا ہے کسی اور شاعر نے کہا ہے :ولرب نازل یضیق بہ الفتی ذرھا وعند اللّٰہ منھا المخرج کملت فلما : ستحلت حلقا تھا فرجت وکان یظنھا لا تفرج یعنی بہت سی ایسی مصیبتیں انسان پر نازل ہوتی ہیں جن سے وہ تنگ دل ہوجاتا ہے حالانکہ اللہ کے پاس ان سے چھٹکارا بھی ہے جب یہ مصیبتیں کامل ہوجاتی ہیں اور اس زنجیر کے حلقے، مضبوط ہوجاتے ہیں اور انسان گمان کرنے لگتا ہے کہ بھلا یہ کیا ہٹیں گی کہ اچانک اس رحیم و کریم اللہ کی شفقت بھری نظریں پڑتی ہیں اور اس مصیبت کو اس طرح ودر کرتا ہے کہ گویا آئی ہی نہ تھی۔ اس کے بعد ارشاد باری ہوتا ہے کہ جب تو دینوی کاموں سے اور یہاں کے اشغال سے فرصت پائے تو ہماری عبادتوں میں لگ جا اور فارغ البال ہو کر دلی توجہ کے ساتھ ہمارے سامنے عاجزی میں لگ جا، اپنی نیت خالص کرلے اپنی پوری رغبت کے ساتھ ہماری جناب کی طرف متوجہ ہوجا۔ اسی معنی کی وہ حدیث ہے جس کی صحت پر اتفاق ہے جس میں ہے کہ کھاناسامنے موجود ہونے کے وقت نماز نہیں اور اس حالت میں بھی کہ انسان کو پاخانہ پیشاب کی حاجت ہو اور حدیث میں ہے کہ جب نماز کھڑی کی جائے اور شام کا کھانا سامنے موجود ہو تو پہلے کھانے سے فراغت حاصل کرلو۔ حضرت مجاہد اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جب امر دنیا سے فارغ ہو کر نماز کے لیے کھڑے ہو تو محنت کے ساتھ عبادت کرو اور مشغولیت کے ساتھ رب کی طرف توجہ کر۔ حضرت ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ جب فرض نماز سے فارغ ہو تو تہجد کی نماز میں کھڑا ہو۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ نماز سے فارغ ہو کر بیٹھے ہوئے اپنے رب کی طرف توجہ کر، حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں یعنی دعا کر، زید بن اسلم اور ضحاک فرماتے ہیں جہاد سے فارغ ہو کر اللہ کی عبادت میں لگ جا، ثوری فرماتے ہیں اپنی نیت اور اپنی رغبت اللہ ہی کی طرف رکھ۔ سورة الم نشرح کی تفسیر اللہ کے فضل و کرم سے ختم ہوئی۔ فالحمد اللہ۔
Additional Authentic Tafsir Resources
Access comprehensive classical Tafsir works recommended by scholars, available online for free
Tafsir Ibn Kathir
The greatest of tafseers - interprets Quran with Quran, Sunnah, Salaf statements, and Arabic
Tafsir As-Sa'di
Excellent tafsir by Shaykh Abdur-Rahman As-Sa'di - simple expressions with tremendous knowledge
Tafsir At-Tabari
Comprehensive and all-inclusive tafsir by Ibn Jarir At-Tabari - earliest major running commentary
Tafsir Al-Baghawi
Trustworthy classical tafsir - Ma'alim al-Tanzil by Al-Husayn ibn Mas'ud al-Baghawi
Scholarly Recommendation: These four tafseers are highly recommended by scholars. Tafsir Ibn Kathir is considered the greatest for its methodology of interpreting Quran with Quran, then Sunnah, then Salaf statements, and finally Arabic language. Tafsir As-Sa'di is excellent for its clarity and simple expressions. All sources are authentic and freely accessible.
Hadith References
Access authentic hadith references and scholarly commentary linked to this verse from trusted Islamic sources
Opens interactive viewer with embedded content from multiple sources
💡 Tip: Click "View Hadith References" to see embedded content from multiple sources in one place. External links open in new tabs for direct access.
Additional Tafsir Resources (Altafsir.com)
Access 7+ classical tafsir commentaries and historical context from the Royal Aal al-Bayt Institute
Links open in a new tab. Content provided by the Royal Aal al-Bayt Institute for Islamic Thought.
Related Hadiths
Sahih al-Bukhari - Hadith 7405
Narrated Abu Huraira:The Prophet (ﷺ) said, "Allah says: 'I am just as My slave thinks I am, (i.e. I am able to do for him what he thinks I can do for him) and I am with him if He remembers Me. If he remembers Me in himself, I too, remember him in Myself; and if he remembers Me in a group of people, I remember him in a group that is better than they; and if he comes one span nearer to Me, I go one cubit nearer to him; and if he comes one cubit nearer to Me, I go a distance of two outstretched arms nearer to him; and if he comes to Me walking, I go to him running