Ash-Shura 40Juz 25

Ayah Study

Surah Ash-Shura (سُورَةُ الشُّورَىٰ), Verse 40

Ayah 4312 of 6236 • Meccan

وَجَزَٰٓؤُا۟ سَيِّئَةٍۢ سَيِّئَةٌۭ مِّثْلُهَا ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُۥ عَلَى ٱللَّهِ ۚ إِنَّهُۥ لَا يُحِبُّ ٱلظَّٰلِمِينَ

Translations

The Noble Quran

English

The recompense for an evil is an evil like thereof; but whoever forgives and makes reconciliation, his reward is with Allâh. Verily, He likes not the Zâlimûn (oppressors, polytheists, and wrong-doers).

Muhammad Asad

English

if He so wills, He stills the wind, and then they lie motionless on the sea’s surface – [and] herein, behold, there are messages indeed for all who are wholly patient in adversity and deeply grateful [to God];

Fatah Muhammad Jalandhari

Urdu

اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے۔ مگر جو درگزر کرے اور (معاملے کو) درست کردے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا

Tafsir (Commentary)

Tafsir al-Sa'di

Salafi Approved
Abdur-Rahman ibn Nasir al-Sa'diArabic

ذكر الله في هذه الآية، مراتب العقوبات، وأنها على ثلاث مراتب: عدل وفضل وظلم.فمرتبة العدل، جزاء السيئة بسيئة مثلها، لا زيادة ولا نقص، فالنفس بالنفس، وكل جارحة بالجارحة المماثلة لها، والمال يضمن بمثله.ومرتبة الفضل: العفو والإصلاح عن المسيء، ولهذا قال: { فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ } يجزيه أجرا عظيما، وثوابا كثيرا، وشرط الله في العفو الإصلاح فيه، ليدل ذلك على أنه إذا كان الجاني لا يليق العفو عنه، وكانت المصلحة الشرعية تقتضي عقوبته، فإنه في هذه الحال لا يكون مأمورا به.وفي جعل أجر العافي على الله ما يهيج على العفو، وأن يعامل العبد الخلق بما يحب أن يعامله الله به، فكما يحب أن يعفو الله عنه، فَلْيَعْفُ عنهم، وكما يحب أن يسامحه الله، فليسامحهم، فإن الجزاء من جنس العمل.وأما مرتبة الظلم فقد ذكرها بقوله: { إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ } الذين يجنون على غيرهم ابتداء، أو يقابلون الجاني بأكثر من جنايته، فالزيادة ظلم.

Tafsir al-Muyassar

Salafi Approved
Committee of Saudi ScholarsArabic

وجزاء سيئة المسيء عقوبته بسيئة مثلها من غير زيادة، فمن عفا عن المسيء، وترك عقابه، وأصلح الودَّ بينه وبين المعفو عنه ابتغاء وجه الله، فأَجْرُ عفوه ذلك على الله. إن الله لا يحب الظالمين الذين يبدؤون بالعدوان على الناس، ويسيئون إليهم.

Tafsir Ibn Kathir

Salafi Approved
Hafiz Ibn KathirArabic

قوله تبارك وتعالى "وجزاء سيئة سيئة مثلها" كقوله تعالى "فمن اعتدى عليكم فاعتدوا عليه بمثل ما اعتدى عليكم" وكقوله "وإن عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم به" الآية فشرع العدل وهو القصاص وندب إلى الفضل وهو العفو كقوله جل وعلا "والجروح قصاص فمن تصدق به فهو كفارة له" ولهذا قال ههنا "فمن عفا وأصلح فأجره على الله" أي لا يضيع ذلك عند الله كما صح ذلك في الحديث "وما زاد الله تعالى عبدا بعفو إلا عزا" وقوله تعالى "إنه لا يحب الظالمين" أي المعتدين وهو المبتدئ بالسيئة.

Tafsir Ibn Kathir

Ismail ibn KathirEnglish

Forgiving or exacting Revenge on Wrongdoers وَجَزَآءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا (The recompense for an evil is an evil like thereof). This is like the Ayat: فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ (Then whoever transgresses the prohibition against you, you transgress likewise against him) (2:194), and وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُواْ بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ (And if you punish, then punish them with the like of that with which you were afflicted) (16:126). Justice, has been prescribed, in the form of the prescribed laws of equality in punishment (Al-Qisas), but the better way, which means forgiving, is recommended, as Allah says: وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ فَمَن تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهُ (and wounds equal for equal. But if anyone remits the retaliation by way of charity, it shall be for him an expiation) (5:45). Allah says here: فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ (but whoever forgives and makes reconciliation, his reward is with Allah. ) means, that will not be wasted with Allah. As it says in a Sahih Hadith: «وَمَا زَادَ اللهُ تَعَالَى عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا» (Allah does not increase the person who forgives except in honor.)" إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الظَّـلِمِينَ (Verily, He likes not the wrongdoers.) means, the aggressors, i.e., those who initiate the evil actions. وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُوْلَـئِكَ مَا عَلَيْهِمْ مِّن سَبِيلٍ (And indeed whosoever takes revenge after he has suffered wrong, for such there is no way (of blame) against them.) means, there is no sin on him for taking revenge against the one who wronged him. إِنَّمَا السَّبِيلُ (The way) means, the burden of sin, عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِى الاٌّرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ (is only against those who oppress men and rebel in the earth without justification;) means, those who initiate wrongful actions against others, as it says in the Sahih Hadith: «الْمُسْتَبَّانِ مَا قَالَا فَعَلَى الْبَادِىءِ، مَا لَمْ يَعْتَدِ الْمَظْلُوم» (When two persons indulge in abusing each other, the one who initiated the wrongful action is to blame, unless the one who was wronged oversteps the mark in retaliation.) أُوْلَـئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (for such there will be a painful torment.) means, intense and agonizing. It was reported that Muhammad bin Wasi` said, "I came to Makkah and there was a security out post over the trench whose guards took me to Marwan bin Al-Muhallab, who was the governor of Basrah. He said, `What do you need, O Abu `Abdullah' I said, `If you can do it, I need you to be like the brother of Banu `Adiy.' He said, `Who is the brother of Banu `Adiy' He said, `Al-`Ala' bin Ziyad; he once appointed a friend of his to a position of authority, and he wrote to him: If you can, only go to sleep after you make sure that there is nothing on your back i.e., you do not owe anything to anyone, your stomach is empty and your hands are untainted by the blood or wealth of the Muslims. If you do that, then there will be no way (of blame) against you -- إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِى الاٌّرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ أُوْلَـئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (The way is only against those who oppress men and rebel in the earth without justification; for such there will be a painful torment.)' Marwan said, `He spoke the truth, by Allah, and gave sincere advice. ' Then he said, `What do you need, O Abu `Abdullah' I said, `I need you to let me join my family.' He said, `Yes I will do that."' This was recorded by Ibn Abi Hatim. When Allah condemned wrongdoing and the people who do it, and prescribed Al-Qisas, He encouraged forgiveness: وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ (And verily, whosoever shows patience and forgives,) meaning, whoever bears the insult with patience and conceals the evil action, إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الاٍّمُورِ (that would truly be from the things recommended by Allah.) Sa`id bin Jubayr said, "This means, one of the things enjoined by Allah," i.e., good actions for which there will be a great reward and much praise.

Tafsir Ibn Kathir

Salafi Approved
Hafiz Ibn KathirUrdu

ارشاد ہوتا ہے کہ برائی کا بدلہ لینا جائز ہے۔ جیسے فرمایا آیت (فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ01904) 2۔ البقرة :194) اور آیت میں ہے (وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ ۭوَلَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ01206) 16۔ النحل :126) یعنی خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے پھر اسے معاف کر دے تو وہ اس کے لئے کفارہ ہوجائے گا۔ یہاں بھی فرمایا جو شخص معاف کر دے اور صلح و صفائی کرلے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ حدیث میں ہے درگذر کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت اور بڑھا دیتا ہے لیکن جو بدلے میں اصل جرم سے بڑھ جائے وہ اللہ کا دشمن ہے۔ پھر برائی کی ابتدا اسی کی طرف سے سمجھی جائے گی پھر فرماتا ہے جس پر ظلم ہو اسے بدلہ لینے میں کوئی گناہ نہیں۔ ابن عون فرماتے ہیں، میں اس لفظ (انتصر) کی تفسیر کی طلب میں تھا تو مجھ سے علی بن زید بن جدعان نے بروایت اپنی والدہ ام محمد کے جو حضرت عائشہ کے پاس جایا کرتی تھیں بیان کیا کہ حضرت عائشہ کے ہاں حضور ﷺ گئے اس وقت حضرت زینب وہاں موجود تھیں آپ کو معلوم نہ تھا صدیقہ کی طرف جب آپ نے ہاتھ بڑھایا تو صدیقہ نے اشارے سے بتایا اس وقت آپ نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ حضرت زینب نے صدیقہ کو برا بھلا کہنا شروع کیا۔ حضور ﷺ کی ممانعت پر بھی خاموش نہ ہوئیں آپ نے حضرت عائشہ کو اجازت دی کہ جواب دیں۔ اب جو جواب ہوا تو حضرت زینب عاجز آگئیں اور سیدھی حضرت علی کے پاس گئیں اور کہا عائشہ تمہیں یوں یوں کہتی ہیں اور ایسا ایسا کرتی ہیں یہ سن کر حضرت فاطمہ حاضر حضور ہوئیں آپ نے ان سے فرمایا قسم رب کعبہ کی ! عائشہ سے میں محبت رکھتا ہوں یہ تو اسی وقت واپس چلی گئیں۔ اور حضرت علی سے سارا واقعہ کہہ سنایا پھر حضرت علی آئے اور آپ سے باتیں کیں۔ یہ روایت ابن جریر میں اسی طرح ہے لیکن اس کے راوی اپنی روایتوں میں عموما منکر حدیثیں لایا کرتے ہیں اور یہ روایت بھی منکر ہے نسائی اور ابن ماجہ میں اس طرح ہے کہ حضرت زینب غصہ میں بھری ہوئی بلا اطلاع حضرت عائشہ کے گھر چلی آئیں اور حضور ﷺ سے حضرت صدیقہ کی نسبت کچھ کہا پھر حضرت عائشہ سے لڑنے لگیں لیکن مائی صاحبہ نے خاموشی اختیار کی جب وہ بہت کہہ چکیں تو آپ نے عائشہ سے فرمایا تو اپنا بدلہ لے لے پھر جو صدیقہ نے جواب دینے شروع کئے تو حضرت زینب کا تھوک خشک ہوگیا۔ کوئی جواب نہ دے سکیں اور حضور ﷺ کے چہرے سے وہ صدمہ ہٹ گیا۔ حاصل یہ ہے کہ مظلوم ظالم کو جواب دے اور اپنا بدلہ لے لے۔ بزار میں ہے ظالم کے لئے جس نے بد دعا کی اس نے بدلہ لے لیا۔ یہی حدیث ترمذی میں ہے لیکن اس کے ایک راوی میں کچھ کلام ہے پھر فرماتا ہے حرج و گناہ ان پر ہے جو لوگوں پر ظلم کریں اور زمین میں بلا وجہ شرو فساد کریں۔ چناچہ صحیح حدیث میں ہے دو برا کہنے والے جو کچھ کہیں سب کا بوجھ شروع کرنے والے پر ہے جب کہ مظلوم بدلے کی حد سے آگے نہ نکل جائے ایسے فسادی قیامت کے دن دردناک عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے حضرت محمد بن واسع فرماتے ہیں میں مکہ جانے لگا تو دیکھا کہ خندق پر پل بنا ہوا ہے میں ابھی وہیں تھا جو گرفتار کرلیا گیا اور امیر بصرہ مروان بن مہلب کے پاس پہنچا دیا گیا اس نے مجھ سے کہا ابو عبداللہ تم کیا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا یہی کہ اگر تم سے ہو سکے تو بنو عدی کے بھائی جیسے بن جاؤ پوچھا وہ کون ہے ؟ کہا علا بن زیاد کہ اپنے ایک دوست کو ایک مرتبہ کسی صیغہ پر عامل بنایا تو انہوں نے اسے لکھا کہ حمد و صلوۃ کے بعد اگر تجھ سے ہو سکے تو یہ کرنا کہ تیری کمر بوجھ سے خالی رہے تیرا پیٹ حرام سے بچ جائے تیرے ہاتھ مسلمانوں کے خون ومال سے آلودہ نہ ہوں تو جب یہ کرے گا تو تجھ پر کوئی گناہ کی راہ باقی نہ رہے گی یہ راہ تو ان پر ہے جو لوگوں پر ظلم کریں اور بےوجہ ناحق زمین میں فساد پھیلائیں۔ مروان نے کہا اللہ جانتا ہے اس نے سچ کہا اور خیر خواہی کی بات کہی۔ اچھا اب کیا آرزو ہے ؟ فرمایا یہی کہ تم مجھے میرے گھر پہنچا دو مروان نے کہا بہت اچھا۔ (ابن ابی حاتم) پس ظلم و اہل ظلم کی مذمت بیان کر کے بدلے کی اجازت دے کر اب افضلیت کی طرف رغبت دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ جو ایذاء برداشت کرلے اور برائی سے درگذر کرلے اس نے بڑی بہادری سے کام کیا جس پر وہ بڑے ثواب اور پورے بدلے کا مستحق ہے۔ حضرت فضیل بن عیاض کا فرمان ہے کہ جب تم سے آکر کوئی شخص کسی اور کی شکایت کرے تو اسے تلقین کرو کہ بھائی معاف کردو معافی میں ہی بہتری ہے اور یہی پرہیزگاری کا ثبوت ہے اگر وہ نہ مانے اور اپنے دل کی کمزوری کا اظہار کرے تو خیر کہہ دو کہ جاؤ بدلہ لے لو لیکن اس صورت میں کہ پھر کہیں تم بڑھ نہ جاؤ ورنہ ہم تو اب بھی یہی کہیں ورنہ ہم تو اب بھی یہی کہیں گے کہ معاف کردو یہ دروازہ بہت وسعت والا ہے اور بدلے کی راہ بہت تنگ ہے سنو معاف کردینے والا تو آرام سے میٹھی نیند سو جاتا ہے اور بدلے کی دھن والا دن رات متفکر رہتا ہے۔ اور توڑ جوڑ سوچتا ہے۔ مسند امام احمد میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابوبکر صدیق کو برا بھلا کہنا شروع کیا حضور ﷺ بھی وہیں تشریف فرما تھے آپ تعجب کے ساتھ مسکرانے لگے حضرت صدیق خاموش تھے لیکن جب کہ اس نے بہت گالیاں دیں تو آپ نے بھی بعض کا جواب دیا۔ اس پر حضور ﷺ ناراض ہو کر وہاں سے چل دئیے۔ حضرت ابوبکر سے رہا نہ گیا آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ وہ مجھے برا بھلا کہتا رہا تو آپ بیٹھے سنتے رہے اور جب میں نے اس کی دو ایک باتوں کا جواب دیا تو آپ ناراض ہو کر اٹھ کے چلے ؟ آپ نے فرمایا سنو جب تک تم خاموش تھے فرشتہ تمہاری طرف سے جواب دیتا تھا جب تم آپ بولے تو فرشتہ ہٹ گیا اور شیطان بیچ میں آگیا پھر بھلا میں شیطان کی موجودگی میں وہاں کیسے بیٹھا رہتا ؟ پھر فرمایا سنو ابوبکر تین چیزیں بالکل حق ہیں 001 جس پر کوئی ظلم کیا جائے اور وہ اس سے چشم پوشی کرلے تو ضرور اللہ اسے عزت دے گا اور اس کی مدد کرے گا 002 جو شخص سلوک اور احسان کا دروازہ کھولے گا اور صلہ رحمی کے ارادے سے لوگوں کو دیتا رہے گا اللہ اسے برکت دے گا اور زیادتی عطا فرمائے گا 003 اور جو شخص مال بڑھانے کے لئے سوال کا دروازہ کھول لے گا اور دوسروں سے مانگتا پھرے گا اللہ اس کے ہاں بےبرکتی کر دے گا اور کمی میں ہی وہ مبتلا رہے گا یہ روایت ابو داؤد میں بھی ہے اور مضمون کے اعتبار سے یہ بڑی پیاری حدیث ہے۔

Additional Authentic Tafsir Resources

Access comprehensive classical Tafsir works recommended by scholars, available online for free

Tafsir Ibn Kathir

The greatest of tafseers - interprets Quran with Quran, Sunnah, Salaf statements, and Arabic

Complete EnglishMost Authentic

Tafsir As-Sa'di

Excellent tafsir by Shaykh Abdur-Rahman As-Sa'di - simple expressions with tremendous knowledge

Complete 10 VolumesSimple & Clear

Tafsir At-Tabari

Comprehensive and all-inclusive tafsir by Ibn Jarir At-Tabari - earliest major running commentary

Abridged EnglishComprehensive

Tafsir Al-Baghawi

Trustworthy classical tafsir - Ma'alim al-Tanzil by Al-Husayn ibn Mas'ud al-Baghawi

Partial EnglishClassical

Scholarly Recommendation: These four tafseers are highly recommended by scholars. Tafsir Ibn Kathir is considered the greatest for its methodology of interpreting Quran with Quran, then Sunnah, then Salaf statements, and finally Arabic language. Tafsir As-Sa'di is excellent for its clarity and simple expressions. All sources are authentic and freely accessible.

Hadith References

Access authentic hadith references and scholarly commentary linked to this verse from trusted Islamic sources

Opens interactive viewer with embedded content from multiple sources

Quick Links to External Sources:

💡 Tip: Click "View Hadith References" to see embedded content from multiple sources in one place. External links open in new tabs for direct access.

Additional Tafsir Resources (Altafsir.com)

Access 7+ classical tafsir commentaries and historical context from the Royal Aal al-Bayt Institute

Classical Tafsir Commentaries:

Links open in a new tab. Content provided by the Royal Aal al-Bayt Institute for Islamic Thought.