Al-Baqara 236Juz 2

Ayah Study

Surah Al-Baqara (سُورَةُ البَقَرَةِ), Verse 236

Ayah 243 of 6236 • Medinan

لَّا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ ٱلنِّسَآءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا۟ لَهُنَّ فَرِيضَةًۭ ۚ وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى ٱلْمُوسِعِ قَدَرُهُۥ وَعَلَى ٱلْمُقْتِرِ قَدَرُهُۥ مَتَٰعًۢا بِٱلْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى ٱلْمُحْسِنِينَ

Translations

The Noble Quran

English

There is no sin on you, if you divorce women while yet you have not touched (had sexual relation with) them, nor appointed unto them their Mahr (bridal-money given by the husband to his wife at the time of marriage). But bestow on them (a suitable gift), the rich according to his means, and the poor according to his means, a gift of reasonable amount is a duty on the doers of good.

Muhammad Asad

English

Unto those who are bent on denying the truth the life of this world [alone] seems goodly; hence, they scoff at those who have attained to faith: but they who are conscious of God shall be above them on Resurrection Day.

Fatah Muhammad Jalandhari

Urdu

اور اگر تم عورتوں کو ان کے پاس جانے یا ان کا مہر مقرر کرنے سے پہلے طلاق دے دو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔ ہاں ان کو دستور کے مطابق کچھ خرچ ضرور دو (یعنی) مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگدست اپنی حیثیت کے مطابق۔ نیک لوگوں پر یہ ایک طرح کا حق ہے

Tafsir (Commentary)

Tafsir al-Sa'di

Salafi Approved
Abdur-Rahman ibn Nasir al-Sa'diArabic

أي: ليس عليكم يا معشر الأزواج جناح وإثم, بتطليق النساء قبل المسيس, وفرض المهر, وإن كان في ذلك كسر لها, فإنه ينجبر بالمتعة، فعليكم أن تمتعوهن بأن تعطوهن شيئا من المال, جبرا لخواطرهن. { عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ } أي: المعسر { قَدَرُهُ } وهذا يرجع إلى العرف, وأنه يختلف باختلاف الأحوال ولهذا قال: { مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ } فهذا حق واجب { عَلَى الْمُحْسِنِينَ } ليس لهم أن يبخسوهن. فكما تسببوا لتشوفهن واشتياقهن, وتعلق قلوبهن, ثم لم يعطوهن ما رغبن فيه, فعليهم في مقابلة ذلك المتعة. فلله ما أحسن هذا الحكم الإلهي, وأدله على حكمة شارعه ورحمته\" ومن أحسن من الله حكما لقوم يوقنون؟\" فهذا حكم المطلقات قبل المسيس وقبل فرض المهر.

Tafsir al-Muyassar

Salafi Approved
Committee of Saudi ScholarsArabic

لا إثم عليكم -أيها الأزواج- إن طلقتم النساء بعد العقد عليهن، وقبل أن تجامعوهن، أو تحددوا مهرًا لهن، ومتِّعوهن بشيء ينتفعن به جبرًا لهن، ودفعًا لوحشة الطلاق، وإزالة للأحقاد. وهذه المتعة تجب بحسب حال الرجل المطلِّق: على الغني قَدْر سَعَة رزقه، وعلى الفقير قَدْر ما يملكه، متاعًا على الوجه المعروف شرعًا، وهو حق ثابت على الذين يحسنون إلى المطلقات وإلى أنفسهم بطاعة الله.

Tafsir Ibn Kathir

Salafi Approved
Hafiz Ibn KathirArabic

أباح تبارك وتعالى طلاق المرأة بعد العقد عليها وقبل الدخول بها. وقال ابن عباس وطاوس وإبراهيم والحسن البصري: المس النكاح بل يجوز أن يطلقها قبل الدخول بها والفرض لها إن كانت مفوضة وإن كان في هذا انكسار لقلبها ولهذا أمر تعالى بإمتاعها وهو تعويضها عما فاتها بشيء تعطاه من زوجها بحسب حاله على الموسع قدره وعلى المقتر قدره. وقال سفيان الثوري عن إسماعيل بن أمية عن عكرمة عن ابن عباس قال: متعة الطلاق أعلاه الخادم ودون ذلك الورق ودون ذلك الكسوة. وقال علي بن أبي طلحة عن ابن عباس: إن كان موسرا متعها بخادم أو نحو ذلك وإن كان معسرا أمتعها بثلاثة أثواب: وقال الشعبي: أوسط ذلك درع وخمار وملحفة وجلباب قال: وكان شريح يمتع بخمسائة. وقال عبدالرزاق أخبرنا معمر عن أيوب بن سيرين قال: كان يمتع بالخادم أو بالنفقة أو بالكسوة. قال: ومتع الحسن بن علي بعشرة آلاف. ويروى أن المرأة قالت: متاع قليل من حبيب مفارق. وذهب أبو حنيفة إلى أنه متى تنازع الزوجان في مقدار المتعة وجب لها عليه نصف مهر مثلها. وقال الشافعي في الجديد: لا يجبر الزوج على قدر معلوم إلا على أقل ما يقع عليه اسم المتعة وأحب ذلك إلى أن يكون أقله ما تجزئ فيه الصلاة وقال في القديم: لا أعرف في المتعة قدرا إلا أني أستحسن ثلاثين درهما كما روي عن ابن عمر رضي الله عنهما وقد اختلف العلماء أيضا هل تجب المتعة لكل مطلقة أو إنما تجب المتعة لغير المدخول بها التي لم يفرض لها على أقوال: أحدها أنها تجب المتعة لكل مطلقة لعموم قوله تعالى "وللمطلقات متاع بالمعروف حقا على المتقين" ولقوله تعالى "يا أيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها فتعالين أمتعكن وأسرحكن سراحا جميلا" وقد كن مفروضا لهن ومدخولا بهن وهذا قول سعيد بن جبير وأبي العالية والحسن البصري وهو أحد قولي الشافعي. ومنهم من جعله الجديد الصحيح والله سبحانه وتعالى أعلم. "والقول الثاني" إنها تجب للمطلقة إذا طلقت قبل المسيس وإن كانت مفروضا لها لقوله تعالى "يا أيها الذين آمنوا إذا نكحتم المؤمنات ثم طلقتموهن من قبل أن تمسوهن فما لكم عليهم من عدة تعتدونها فمتعوهن وسرحوهن سراحا جميلا" قال شعبة وغيره عن قتادة عن سعيد بن المسيب قال: نسخت هذه الآية التي في الأحزاب الآية التي في البقرة وقد روى البخاري في صحيحه عن سهل بن سعد وأبي أسيد أنهما قالا تزوج رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أميمة بنت شرحبيل فلما أدخلت عليه بسط يده إليها فكأنها كرهت ذلك فأمر أبا أسيد أن يجهزها ويكسوها ثوبين أزرقين. "والقول الثالث" أن المتعة إنما تجب للمطلقة إذا لم يدخل بها ولم يفرض لها فإن كان قد دخل بها وجب لها مهر مثلها إذا كانت مفوضة وإن كان قد فرض لها وطلقها قبل الدخول وجب لها عليه شطره فإن دخل بها استقر الجميع وكان ذلك عوضا لها عن المتعة وإنما المصابة التي لم يفرض لها ولم يدخل بها فهذه التي دلت هذه الآية الكريمة على وجوب متعتها وهذا قول ابن عمر ومجاهد ومن العلماء من استحبها لكل مطلقة ممن عدا المفوضة المفارقة قبل الدخول وهذا ليس بمنكور وعليه تحمل آية التخيير في الأحزاب ولهذا قال تعالى "على الموسع قدره وعلى المقتر قدره متاعا بالمعروف حقا على المحسنين وللمطلقات متاع بالمعروف حقا على المتقين" ومن العلماء من يقول إنها مستحبة مطلقا. قال ابن أبي حاتم: حدثنا كثير بن شهاب القزويني حدثنا محمد بن سعيد بن سابق حدثنا عمروـ يعني ابن أبي قيس ـ عن أبي إسحاق عن الشعبي قال: ذكروا له المتعة أيحبس فيها فقرأ "على الموسع قدره وعلى المقتر قدره" قال الشعبي: والله ما رأيت أحدا حبس فيها والله لو كانت واجبة لحبس فيها القضاة.

Tafsir Ibn Kathir

Ismail ibn KathirEnglish

Divorce before consummating the Marriage Allah allowed divorce after the marriage contract and before consummating the marriage. Ibn `Abbas, Tawus, Ibrahim and Al-Hasan Al-Basri said that `touched' (mentioned in the Ayah) means sexual intercourse. The husband is allowed to divorce his wife before consummating the marriage or giving the dowry if it was deferred. The Mut`ah (Gift) at the time of Divorce Allah commands the husband to give the wife (whom he divorces before consummating the marriage) a gift of a reasonable amount, the rich according to his means and the poor according to his means, to compensate her for her loss. Al-Bukhari reported in his Sahih that Sahl bin Sa`d and Abu Usayd said that Allah's Messenger ﷺ married Umaymah bint Sharahil. When she was brought to the Prophet he extended his hand to her, but she did not like that. The Prophet then ordered Abu Usayd to provide provisions for her along with a gift of two garments.

Tafsir Ibn Kathir

Salafi Approved
Hafiz Ibn KathirUrdu

حق مہر کب اور کتنا : عقد نکاح کے بعد دخول سے بھی طلاق کا دینا مباح ہو رہا ہے۔ مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہاں مراد " مس " سے نکاح ہے دخول سے پہلے طلاق دے دینا بلکہ مہر کا بھی ابھی تقرر نہیں ہوا اور طلاق دے دینا بھی جائز ہے، گو اس میں عورت کے بیحد دل شکنی ہے، اسی لئے حکم ہے کہ اپنے مقدور بھر اس صورت میں مرد کو عورت کے ساتھ سلوک کرنا چاہئے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس کا اعلیٰ حصہ خادم ہے اور اس سے کمی چاندی ہے اور اس سے کم کپڑا ہے یعنی اگر مالدار ہے تو غلام وغیرہ دے اور اگر مفلس ہے تو کم سے کم تین کپڑے دے۔ حضرت شعبی فرماتے ہیں درمیانہ درجہ اس فائدہ پہنچانے کا یہ ہے کہ کرتہ دوپٹہ لحاف اور چادر دے دے۔ تشریح فرماتے ہیں پانچ سو درہم دے، ابن سیرین فرماتے ہیں غلام دے یا خوراک دے یا کپڑے لتے دے، حضرت حسن بن علی نے دس ہزار دئیے تھے لیکن پھر بھی وہ بیوی صاحبہ فرماتی تھیں کہ اس محبوب مقبول کی جدائی کے مقابلہ میں یہ حقیر چیز کچھ بھی نہیں۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ اگر دونوں اس فائدہ کی مقدار میں تنازعہ کریں تو اس کے خاندان کے مہر سے آدھی رقم دلوا دی جائے، حضرت امام شافعی کا فرمان ہے کہ کسی چیز پر خاوند کو مجبور نہیں کیا جاسکتا بلکہ کم سے کم جس چیز کو متعہ یعنی فائدہ اور اسباب کہا جاسکتا ہے وہ کافی ہوگا۔ میرے نزدیک اتنا کپڑا متعہ ہے جتنے میں نماز پڑھ لینی جائز ہوجائے، گو پہلا قول حضرت الامام کا یہ تھا کہ مجھے اس کا کوئی صحیح اندازہ معلوم نہیں لیکن میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ کم سے کم تیس درہم ہونے چاہئیں جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے، اس بارے میں بہت سے اقوال ہیں کہ ہر طلاق والی عورت کو کچھ نہ کچھ اسباب دینا چاہئے یا صرف اسی صورت کو جس سے میل ملاپ نہ ہوا ہو، بعض تو سب کیلئے کہتے ہیں کیونکہ قرآن کریم میں ہے کہ آیت (وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ ۭحَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ) 2۔ البقرۃ :241) پس اس آیت کے عموم سے سب کیلئے وہ ثابت کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی دلیل یہ بھی ہے آیت (فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا) 33۔ الاحزاب :28) یعنی اے نبی ﷺ اپنی بیویوں سے کہو کہ اگر تمہاری چاہت دنیا کی زندگی اور اسی کی زینت کی ہے تو آؤ میں تمہیں کچھ اسباب بھی دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ چھوڑ دوں، پس یہ تمام ازواج مطہرات وہ تھیں جن کا مہر بھی مقرر تھا اور جو حضور ﷺ کی خدمت میں بھی آچکی تھیں، سعید بن جبیر، ابو العالیہ، حسن بصری کا قول یہی ہے۔ امام شافعی کا بھی ایک قول یہی ہے اور بعض تو کہتے ہیں کہ ان کا نیا اور صحیح قول یہی ہے واللہ اعلم۔ بعض کہتے ہیں اسباب کا دینا اس طلاق والی کو ضروری ہے جس سے خلوت نہ ہوئی ہو گو مہر مقرر ہوچکا ہو کیونکہ قرآن کریم میں ہے آیت (يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا ۚ فَمَتِّعُوْهُنَّ وَسَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا) 33۔ الاحزاب :49) یعنی اے ایمان والو تم جب ایمان والی عورت سے نکاح کرلو پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر تمہاری طرف سے کوئی عدت نہیں جو عدت وہ گزاریں تم انہیں کچھ مال اسباب دے دو اور حسن کردار سے چھوڑ دو ، سعید بن مسیب کا قول ہے کہ سورة احزاب کی یہ آیت سورة بقرہ کی آیت سے منسوخ ہوچکی ہے۔ حضرت سہل بن سعد اور ابو اسید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت امیہ بنت شرجبیل سے نکاح کیا جب وہ رخصت ہو کر آئیں اور آپ نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو گویا اس نے برا مانا، آپ ﷺ نے ابو اسید سے فرمایا اسے دو رنگین کپڑے دے کر رخصت کرو، تیسرا قول یہ ہے کہ صرف اسی صورت میں بطور فائدہ کے اسباب و متاع کا دینا ضروری ہے جبکہ عورت کی وداع نہ ہوئی ہو اور مہر بھی مقرر نہ ہوا ہو اور اگر دخول ہوگیا ہو تو مہر مثل یعنی خاندان کے دستور کے مطابق دینا پڑے گا اگر مقرر نہ ہوا ہو اور اگر مقرر ہوچکا ہو اور رخصت سے پہلے طلاق دے دے تو آدھا مہر دینا پڑے گا اور اگر رخصتی بھی ہوچکی ہے تو پورا مہر دینا پڑے گا اور یہی متعہ کا عوض ہوگا۔ ہاں اس مصیبت زدہ عورت کیلئے متعہ ہے جس سے نہ ملاپ ہوا نہ مہر مقرر ہوا اور طلاق مل گئی۔ حضرت ابن عمر اور مجاہد کا یہی قول ہے، گو بعض علماء اسی کو مستحب بتلاتے ہیں کہ ہر طلاق والی عورت کو کچھ نہ کچھ دے دینا چاہئے ان کے سوا جو مہر مقرر کئے ہوئے نہ ہوں اور نہ خاوند بیوی کا میل ہوا ہو، یہی مطلب سورة احزاب کی اس آیت تخیر کا ہے جو اس سے پہلے اسی آیت کی تفسیر میں بیان ہوچکی ہے اور اسی لئے یہاں اس خاص صورت کیلئے فرمایا گیا ہے کہ امیر اپنی وسعت کے مطابق دیں اور غریب اپنی طاقت کے مطابق۔ حضرت شعبی سے سوال ہوتا ہے کہ یہ اسباب نہ دینے والا کیا گرفتار کیا جائے گا ؟ تو آپ فرماتے ہیں اپنی طاقت کے برابر دے دے، اللہ کی قسم اس بارے میں کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا اگر یہ واجب ہوتا تو قاضی لوگ ضرور ایسے شخص کو قید کرلیتے۔

Additional Authentic Tafsir Resources

Access comprehensive classical Tafsir works recommended by scholars, available online for free

Tafsir Ibn Kathir

The greatest of tafseers - interprets Quran with Quran, Sunnah, Salaf statements, and Arabic

Complete EnglishMost Authentic

Tafsir As-Sa'di

Excellent tafsir by Shaykh Abdur-Rahman As-Sa'di - simple expressions with tremendous knowledge

Complete 10 VolumesSimple & Clear

Tafsir At-Tabari

Comprehensive and all-inclusive tafsir by Ibn Jarir At-Tabari - earliest major running commentary

Abridged EnglishComprehensive

Tafsir Al-Baghawi

Trustworthy classical tafsir - Ma'alim al-Tanzil by Al-Husayn ibn Mas'ud al-Baghawi

Partial EnglishClassical

Scholarly Recommendation: These four tafseers are highly recommended by scholars. Tafsir Ibn Kathir is considered the greatest for its methodology of interpreting Quran with Quran, then Sunnah, then Salaf statements, and finally Arabic language. Tafsir As-Sa'di is excellent for its clarity and simple expressions. All sources are authentic and freely accessible.

Hadith References

Access authentic hadith references and scholarly commentary linked to this verse from trusted Islamic sources

Opens interactive viewer with embedded content from multiple sources

Quick Links to External Sources:

💡 Tip: Click "View Hadith References" to see embedded content from multiple sources in one place. External links open in new tabs for direct access.

Additional Tafsir Resources (Altafsir.com)

Access 7+ classical tafsir commentaries and historical context from the Royal Aal al-Bayt Institute

Classical Tafsir Commentaries:

Links open in a new tab. Content provided by the Royal Aal al-Bayt Institute for Islamic Thought.