Maryam 23Juz 16

Ayah Study

Surah Maryam (سُورَةُ مَرۡيَمَ), Verse 23

Ayah 2273 of 6236 • Meccan

فَأَجَآءَهَا ٱلْمَخَاضُ إِلَىٰ جِذْعِ ٱلنَّخْلَةِ قَالَتْ يَٰلَيْتَنِى مِتُّ قَبْلَ هَٰذَا وَكُنتُ نَسْيًۭا مَّنسِيًّۭا

Translations

The Noble Quran

English

And the pains of childbirth drove her to the trunk of a date-palm. She said: "Would that I had died before this, and had been forgotten and out of sight!"

Muhammad Asad

English

And in time she returned to her people, carrying the child with her.

Fatah Muhammad Jalandhari

Urdu

پھر درد زہ ان کو کھجور کے تنے کی طرف لے آیا۔ کہنے لگیں کہ کاش میں اس سے پہلے مرچکتی اور بھولی بسری ہوگئی ہوتی

Tafsir (Commentary)

Tafsir al-Sa'di

Salafi Approved
Abdur-Rahman ibn Nasir al-Sa'diArabic

تفسير الايتين 22 و 23 :ـأي: لما حملت بعيسى عليه السلام، خافت من الفضيحة، فتباعدت عن الناس { مَكَانًا قَصِيًّا ْ} فلما قرب ولادها، ألجأها المخاض إلى جذع نخلة، فلما آلمها وجع الولادة، ووجع الانفراد عن الطعام والشراب، ووجع قلبها من قالة الناس، وخافت عدم صبرها، تمنت أنها ماتت قبل هذا الحادث، وكانت نسيا منسيا فلا تذكر. وهذا التمني بناء على ذلك المزعج، وليس في هذه الأمنية خير لها ولا مصلحة، وإنما الخير والمصلحة بتقدير ما حصل.

Tafsir al-Muyassar

Salafi Approved
Committee of Saudi ScholarsArabic

فألجأها طَلْقُ الحمل إلى جذع النخلة فقالت: يا ليتني متُّ قبل هذا اليوم، وكنت شيئًا لا يُعْرَف، ولا يُذْكَر، ولا يُدْرَى مَن أنا؟

Tafsir Ibn Kathir

Salafi Approved
Hafiz Ibn KathirArabic

وقوله "فأجاءها المخاض إلى جذع النخلة" أي فاضطرها وألجأها الطلق إلى جذع نخلة في المكان الذي تنحت إليه وقد اختلفوا فيه فقال السدي كان شرقي محرابها الذي تصلي فيه من بيت المقدس وقال وهب بن منبه ذهبت هاربة فلما كانت بين الشام وبلاد مصر ضربها الطلق وفي رواية عن وهب كان ذلك على ثمانية أميال من بيت المقدس في قرية هناك يقال لها بيت لحم قلت وقد تقدم في أحاديث الإسراء من رواية النسائي عن أنس رضي عنه والبيهقي عن شداد بن أوس رضي الله عنه أن ذلك ببيت لحم فالله أعلم; وهذا هو المشهور الذي تلقاه الناس بعضهم عن بعض ولا يشك فيه النصارى أنه ببيت لحم وقد تلقاه الناس وقد ورد به الحديث إن صح وقوله تعالى إخبارا عنها "قالت يا ليتني مت قبل هذا وكنت نسيا منسيا" فيه دليل على جواز تمني الموت عند الفتنة فإنها عرفت أنها ستبتلى وتمتحن بهذا المولود الذي لا يحمل الناس أمرها فيه على السداد ولا يصدقونها في خبرها وبعد ما كانت عندهم عابدة ناسكة تصبح عندهم فيما يظنون عاهرة زانية فقالت "يا ليتني مت قبل هذا" أي قبل هذا الحال "وكنت نسيا منسيا" أي لم أخلق ولم أك شيئا قاله ابن عباس وقال السدي قالت وهي تطلق من الحبل استحياء من الناس يا ليتني مت قبل هذا الكرب الذي أنا فيه والحزن بولادتي المولود من غير بعل "وكنت نسيا منسيا" نسي فترك طلبه كخرق الحيض إذا ألقيت وطرحت لم تطلب ولم تذكر وكذلك كل شيء نسي وترك فهو نسي وقال قتادة "وكنت نسيا منسيا" أي شيئا لا يعرف ولا يذكر ولا يدري من أنا وقال الربيع بن أنس "وكنت نسيا منسيا" هو السقط وقال ابن زيد لم أكن شيئا قط وقد قدمنا الأحاديث الدالة على النهي عن تمني الموت إلا عند الفتنة عند قوله "توفني مسلما وألحقني بالصالحين".

Tafsir Ibn Kathir

Ismail ibn KathirEnglish

The Conception and the Birth Allah, the Exalted, informs about Maryam that when Jibril had spoken to her about what Allah said, she accepted the decree of Allah. Many scholars of the predecessors (Salaf) have mentioned that at this point the angel (who was Jibril) blew into the opening of the garment that she was wearing. Then the breath descended until it entered into her vagina and she conceived the child by the leave of Allah. Muhammad bin Ishaq said, "When she conceived him and filled her water jug (at a well), she returned (to her people). After this, her menstrual bleeding ceased and she experienced what the pregnant woman experiences of sickness, hunger, change of color and there was even a change in the manner of her speech. After this, no people came to visit any house like they did the house of Zakariyya. The word spread among the Children of Israel and the people were saying, `Verily, her partner (in fornication) was Yusuf, because there was no one else in the temple with her except him.' So she hid herself from the people and placed a veil between herself and them. No one saw her and she did not see anyone else." Allah said; فَأَجَآءَهَا الْمَخَاضُ إِلَى جِذْعِ النَّخْلَةِ (And the pains of childbirth drove her to the trunk of a date palm.) This means that her pains of labor compelled her to go to the trunk of a date-palm tree that was at the place where she had secluded herself. The scholars differed over its location. As-Suddi said, "Her place of seclusion was to the east and that was where she would pray at the Sacred House of Jerusalem." Wahb bin Munabbih said, "She ran away and when she reached an area between Ash-Sham and Egypt, she was overcome by labor pains." In another narration from Wahb, he said, "This took place eight miles from the Sacred House of Jerusalem in a village that was known as Bayt Al-Lahm (Bethlehem)." I say, there are Hadiths about the Isra' (Night Journey of the Prophet ) that are reported by An-Nasa'i on the authority of Anas, and Al-Bayhaqi on the authority of Shadad bin Aws, that say that this took place at Bait Al-Lahm. Allah knows best. This is what is well known that the people all relate from each other. The Christians have no doubt held that the place of this occurrence was Bethlehem and this is what all the people relate. It has been related in a Hadith also, if the Hadith is authentic. Allah says, informing about her, قَالَتْ يلَيْتَنِى مِتُّ قَبْلَ هَـذَا وَكُنتُ نَسْياً مَّنسِيّاً (She said: "Would that I had died before this, and had been forgotten and out of sight!") In this is an evidence of the permissibility to wish for death when a calamity strikes. She knew that she was going to be tested with the birth, the people would not assist her, and they would not believe her story. After she was known as a devout worshipper among them, they now thought that she had become a fornicating whore. She said, يلَيْتَنِى مِتُّ قَبْلَ هَـذَا (Would that I had died before this,) She said this to mean before this situation. وَكُنتُ نَسْياً مَّنسِيّاً (and I had been forgotten and out of sight!) This means, "I wish I had not been created and I was nothing." This was mentioned by Ibn `Abbas. Qatadah said, وَكُنتُ نَسْياً مَّنسِيّاً (and I had been forgotten and out of sight!) "This means something unknown, forgotten and no one knew who I was."

Tafsir Ibn Kathir

Salafi Approved
Hafiz Ibn KathirUrdu

مریم (علیہا السلام) اور حضرت جبرائیل ؑ۔مروی ہے کہ جب آپ فرمان الہٰی تسلیم کر چکیں اور اس کے آگے گردن جھکا دی تو حضرت جبرائیل ؑ نے ان کے کرتے کے گریبان میں پھونک ماری۔ جس سے انہیں بحکم رب حمل ٹھہر گیا اب تو سخت گبھرائیں اور یہ خیال کلیجہ مسوسنے لگا کہ میں لوگوں کو کیا منہ دکھاؤں گی ؟ لاکھ اپنی برات پیش کروں لیکن اس انوکھی بات کو کون مانے گا ؟ اسی گھبراہٹ میں آپ تھیں کسی سے یہ واقعہ بیان نہیں کیا تھا ہاں جب آپ اپنی خالہ حضرت زکریا (علیہا السلام) کی بیوی کے پاس گئیں تو وہ آپ سے معانقہ کرکے کہنے لگیں بچی اللہ کی قدرت سے اور تمہارے خالو کی دعا سے میں اس عمر میں حاملہ ہوگئی ہوں۔ آپ نے فرمایا خالہ جان میرے ساتھ یہ واقعہ گزرا اور میں بھی اپنے آپ کو اسی حالت میں پاتی ہوں چونکہ یہ گھرانہ نبی کا گھرانہ تھا۔ وہ قدرت الہٰی پر اور صداقت مریم پر ایمان لائیں۔ اب یہ حالت تھی کہ جب کبھی یہ دونوں پاک عورتیں ملاقات کرتیں تو خالہ صاحبہ یہ محسوس فرماتیں کہ گویا ان کا بچہ بھانجی کے بچے کے سامنے جھکتا ہے اور اس کی عزت کرتا ہے۔ ان کے مذہب میں یہ جائز بھی تھا اسی وجہ سے حضرت یوسف ؑ کے بھائیوں نے اور آپ کے والد نے آپ کو سجدہ کیا تھا۔ اور اللہ نے فرشتوں کو حضرت آدم ؑ کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا لیکن ہماری شریعت میں یہ تعظیم اللہ کے لیے مخصوص ہوگئی اور کسی دوسرے کو سجدہ کرنا حرام ہوگیا کیونکہ یہ تعظیم الہٰی کے خلاف ہے۔ اس کی جلالت کے شایان شان نہیں۔ امام مالک ؒ فرماتے ہیں حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت یحییٰ ؑ خالہ زاد بھائی تھے۔ دونوں ایک ہی وقت حمل میں تھے۔ حضرت یحییٰ ؑ کی والدہ اکثر حضرت مریم سے فرماتی تھیں کہ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرا بچہ تیرے بچے کے سامنے سجدہ کرتا ہے۔ امام مالک ؒ فرماتے ہیں اس سے حضرت عیسیٰ ؑ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کیونکہ اللہ نے آپ کے ہاتھوں اپنے حکم سے مردوں کو زندہ کردیا اور مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو بھلا چنگا کردیا۔ جمہور کا قول تو یہ ہے کہ آپ نو مہینے تک حمل میں رہے۔ عکرمہ ؒ فرماتے ہیں آٹھ ماہ تک۔ اسی لئے آٹھ ماہ کے حمل کا بچہ عموما زندہ نہیں رہتا ابن عباس ؓ فرماتے ہیں حمل کے ساتھ ہی بچہ ہوگیا۔ یہ قول غریب ہے۔ ممکن ہے آپ نے آیت کے ظاہری الفاظ سے یہ سمجھا ہو کیونکہ حمل کا الگ ہونے کا اور دردزہ کا ذکر ان آیتوں میں "" کے ساتھ ہے اور "" تعقیب کے لئے آتی ہے۔ لیکن تعقیب ہر چیز کی اس کے اعتبار سے ہوتی ہے جیسے عام انسانوں کی پیدائش کا حال آیت قرآن (وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـةٍ مِّنْ طِيْنٍ 12 ؀ۚ) 23۔ المؤمنون :12) میں ہوا ہے کہ ہم نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا پھر اسے بصورت نطفہ رحم میں ٹھہرایا پھر نطفے کو پھٹکی بنایا پھر اس پھٹکی کو لو تھڑا بنایا، پھر اس لوتھڑے میں ہڈیاں پیدا کیں۔ یہاں بھی دو جگہ "" ہے اور ہے بھی تعقیب کے لیے۔ لیکن حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ان دو حالتوں میں چالیس دن کا فاصلہ ہوتا ہے۔ قرآن کریم کی آیت میں ہے (اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً ۡ فَتُصْبِحُ الْاَرْضُ مُخْضَرَّةً ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَطِيْفٌ خَبِيْرٌ 63؀ۚ) 22۔ الحج :63) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برساتا ہے۔ پس زمین سرسبز ہوجاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ پانی برسنے کے بعد سبزہ اگتا ہے۔ حالانکہ "" یہاں بھی ہے پس تعقیب ہر چیز کے اعتبار سے ہوتی ہے۔ سیدھی سی بات تو یہ ہے کہ مثل عادت عورتوں کے آپ نے حمل کا زمانہ پورا گزارا مسجد میں ہی۔ مسجد کے خادم ایک صاحب اور تھے جن کا نام یوسف نجار تھا۔ انہوں نے جب مریم (علیہا السلام) کا یہ حال دیکھا تو دل میں کچھ شک سا پیدا ہوا لیکن حضرت مریم کے زہد وتقوی، عبادت وریاضت، خشیت الہٰی اور حق بینی کو خیال کرتے ہوئے انہوں نے یہ برائی دل سے دور کرنی چاہی، لیکن جوں جوں دن گزرتے گئے حمل کا اظہار ہوتا گیا اب تو خاموش نہ رہ سکے ایک دن با ادب کہنے لگے کہ مریم میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں ناراض نہ ہونا بھلا بغیر بیج کے کسی درخت کا ہونا، بغیر دانے کے کھیت کا ہونا، بغیر باپ کے بچے کا ہونا ممکن بھی ہے ؟ آپ ان کے مطلب کو سمجھ گئیں اور جواب دیا کہ یہ سب ممکن ہے سب سے پہلے جو درخت اللہ تعالیٰ نے اگایاوہ بغیر بیج کے تھا۔ سب سے پہلے جو کھیتی اللہ نے اگائی وہ بغیر دانے کی تھی، سب سے پہلے اللہ نے آدم ؑ کو پیدا کیا وہ بےباپ کے تھے بلکہ بےماں کے بھی ان کی تو سمجھ میں آگیا اور حضرت مریم (علیہا السلام) اور اللہ کی قدرت کو نہ جھٹلا سکے۔ اب حضرت صدیقہ نے جب دیکھا کہ قوم کے لوگ ان پر تہمت لگا رہے ہیں تو آپ ان سب کو چھوڑ چھاڑ کر دور دراز چلی گئیں۔ امام محمد بن اسحاق ؒ فرماتے ہیں جب حمل کے حالات ظاہر ہوگئے قوم نے پھبتیاں پھینکی، آوازے کسنے اور باتیں بنانی شروع کردیں اور حضرت یوسف نجار جیسے صالح شخص پر یہ تہمت اٹھائی تو آپ ان سب سے کنارہ کش ہوگئیں نہ کوئی انہیں دیکھے نہ آپ کسی کو دیکھیں۔ جب دردزہ اٹھا تو آپ کجھور کے ایک درخت کی جڑ میں آبیٹھیں کہتے ہیں کہ یہ خلوت خانہ بیت المقدس کی مشرقی جانب کا حجرہ تھا۔ یہ بھی قول ہے کہ شام اور مصر کے درمیان آپ پہنچ چکی تھیں اس وقت بچہ ہونے کا درد شروع ہوا۔ اور قول ہے کہ بیت المقدس سے آپ آٹھ میل چلی گئی تھیں اس بستی کا نام بیت لحم تھا۔ معراج کے واقعہ کے بیان میں پہلے ایک حدیث گزری ہے جس میں ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش کی جگہ بھی بیت لحم تھا۔ واللہ اعلم۔ مشہور بات بھی یہی ہے اور نصرانیوں کا تو اس پر اتفاق ہے اور اس حدیث میں بھی ہے اگر یہ صحیح ہو۔ اس وقت آپ موت کی تمنا کرنے لگیں کیونکہ دین کے فتنے کے وقت یہ تمنا بھی جائز ہے۔ جانتی تھیں کہ کوئی انہیں سچا نہ کہے گا انکے بیان کردہ واقعہ کو ہر شخص گھڑنت سمجھے گا۔ دنیا آپ کو پریشان کر دے گی اور عبادت واطمینان میں خلل پڑے گا۔ ہر شخص برائی سے یاد کرے گا اور لوگوں پر برا اثر پڑے گا۔ تو فرمانے لگیں کاش کہ میں اس حالت سے پہلے ہی اٹھالی جاتی بلکہ میں پیدا ہی نہ کی جاتی اس قدر شرم وحیا دامن گیر ہوئی کہ آپ نے اس تکلیف پر موت کو ترجیح دی اور تمنا کی کہ کاش میں کھوئی ہوئی اور یاد سے اتری ہوئی چیز ہوجاتی کہ نہ کوئی یاد کرے۔ نہ ڈھونڈے، نہ ذکر کرے، احادیث میں موت مانگنے کی ممانعت وارد ہے۔ ہم نے ان روایتوں کو آیت (تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بالصّٰلِحِيْنَ01001) 12۔ یوسف :101) ، کی تفسیر بیان کردیا ہے۔

Additional Authentic Tafsir Resources

Access comprehensive classical Tafsir works recommended by scholars, available online for free

Tafsir Ibn Kathir

The greatest of tafseers - interprets Quran with Quran, Sunnah, Salaf statements, and Arabic

Complete EnglishMost Authentic

Tafsir As-Sa'di

Excellent tafsir by Shaykh Abdur-Rahman As-Sa'di - simple expressions with tremendous knowledge

Complete 10 VolumesSimple & Clear

Tafsir At-Tabari

Comprehensive and all-inclusive tafsir by Ibn Jarir At-Tabari - earliest major running commentary

Abridged EnglishComprehensive

Tafsir Al-Baghawi

Trustworthy classical tafsir - Ma'alim al-Tanzil by Al-Husayn ibn Mas'ud al-Baghawi

Partial EnglishClassical

Scholarly Recommendation: These four tafseers are highly recommended by scholars. Tafsir Ibn Kathir is considered the greatest for its methodology of interpreting Quran with Quran, then Sunnah, then Salaf statements, and finally Arabic language. Tafsir As-Sa'di is excellent for its clarity and simple expressions. All sources are authentic and freely accessible.

Hadith References

Access authentic hadith references and scholarly commentary linked to this verse from trusted Islamic sources

Opens interactive viewer with embedded content from multiple sources

Quick Links to External Sources:

💡 Tip: Click "View Hadith References" to see embedded content from multiple sources in one place. External links open in new tabs for direct access.

Additional Tafsir Resources (Altafsir.com)

Access 7+ classical tafsir commentaries and historical context from the Royal Aal al-Bayt Institute

Classical Tafsir Commentaries:

Links open in a new tab. Content provided by the Royal Aal al-Bayt Institute for Islamic Thought.

Islamic Nexus - Quran, Hadith, Islamic Books & Resources