Al-Fil 5Juz 30

Ayah Study

Surah Al-Fil (سُورَةُ الفِيلِ), Verse 5

Ayah 6193 of 6236 • Meccan

فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍۢ مَّأْكُولٍۭ

Translations

The Noble Quran

English

And He made them like (an empty field of) stalks (of which the corn has been eaten up by cattle).<sup foot_note=155065>1</sup>

Muhammad Asad

English

and caused them to become like a field of grain that has been eaten down to stubble

Fatah Muhammad Jalandhari

Urdu

تو ان کو ایسا کر دیا جیسے کھایا ہوا بھس

Tafsir (Commentary)

Tafsir al-Sa'di

Salafi Approved
Abdur-Rahman ibn Nasir al-Sa'diArabic

وصاروا كعصف مأكول، وكفى الله شرهم، ورد كيدهم في نحورهم، [وقصتهم معروفة مشهورة] وكانت تلك السنة التي ولد فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصارت من جملة إرهاصات دعوته، ومقدمات رسالته، فلله الحمد والشكر.

Tafsir al-Muyassar

Salafi Approved
Committee of Saudi ScholarsArabic

فجعلهم به محطمين كأوراق الزرع اليابسة التي أكلتها البهائم ثم رمت بها.

Tafsir Ibn Kathir

Salafi Approved
Hafiz Ibn KathirArabic

قوله تعالى "فجعلهم كعصف مأكول" قال سعيد بن جبير يعني التبن الذي تسميه العامة هبور وفي رواية عن سعيد ورق الحنطة وعنه أيضا العصف التبن والمأكول القصيل يجز للدواب وكذلك قال الحسن البصري وعن ابن عباس العصف القشرة التي على الحبة كالغلاف على الحنطة. وقال ابن زيد العصف ورق الزرع وورق البقل إذا أكلته البهائم فراثته فصار درينا والمعنى أن الله سبحانه وتعالى أهلكهم ودمرهم وردهم بكيدهم وغيظهم لم ينالوا خيرا وأهلك عامتهم ولم يرجع منهم مخبر إلا وهو جريح كما جرى لملكهم أبرهة فإنه انصدع صدره عن قلبه حين وصل إلى بلده صنعاء وأخبرهم بما جرى لهم ثم مات فملك بعده ابنه يكسوم ثم من بعده أخوه مسروق بن أبرهة. ثم خرج سيف بن ذي يزن الحميري إلى كسرى فاستعانه على الحبشة فأنفذ معه من جيوشه فقاتلوا معه فرد الله إليهم ملكهم وما كان في آبائهم من الملك وجاءته وفود العرب بالتهنئة. وقد قال محمد بن إسحاق: حدثنا عبدالله بن أبي بكير عن عمرة بنت عبد الرحمن بن أسعد بن زرارة عن عائشة رضي الله عنها قالت: لقد رأيت قائد الفيل وسائسه بمكة أعميين مقعدين يستطعمان. ورواه الواقدي عن عائشة مثله ورواه عن أسماء بنت أبي بكر أنها قالت كانا مقعدين يستطعمان الناس عند أساف ونائلة حيث يذبح المشركون ذبائحهم "قلت" كان اسم قائد الفيل أنيسا. وقد ذكر الحافظ أبو نعيم في كتاب دلائل النبوة من طريق ابن وهب عن ابن لهيعة عن عقيل بن خالد عن عثمان بن المغيرة قصة أصحاب الفيل ولم يذكر أن أبرهة قدم من اليمن وإنما بعث على الجيش رجلا يقال له شمر بن مقصود وكان الجيش عشرين ألفا وذكر أن الطير طرقتهمم ليلا فأصبحوا صرعى وهذا السياق غريب جدا وإن كان أبو نعيم قد قواه ورجحه على غيره والصحيح أن أبرهة الأشرم قدم من مكة كما دل على ذلك السياقات والأشعار. وهكذا روي عن ابن لهيعة عن الأسود عن عروة أن أبرهة بعث الأسود بن مقصود على كتيبة معهم الفيل ولم يذكر قدوم أبرهة نفسه. والصحيح قدومه ولعل ابن مقصود كان على مقدمة الجيش والله أعلم ثم ذكر ابن إسحاق شيئا من أشعار العرب فيما كان من قصة أصحاب الفيل فمن ذلك شعر عبدالله بن الزبعرى: تنكلوا عن بطن مكة إنها كانت قديما لا يرام حريمها لم تخلق الشعرى ليالي حرمت إذ لا عزيز من الأنام يرومها سائل أمير الجيش عنها ما رأى فلسوف ينبي الجاهلين عليمها ستون ألفا لم يؤبوا أرضهم بل لم يعش بعد الإياب سقيمها كانت بها عاد وجرهم قبلهم والله من فوق العباد يقيمها وقال أبو قيس بن الأسلت الأنصاري المدني: ومن صنعه يوم فيل الحبوش إذ كل ما بعثوه رزم محاجنهم تحت أقرابه وقد شرموا أنفه فانخرم وقد جعلوا سوطه مغولا إذا يمموه قفاه كلم فولى وأدبر أدراجه وقد باء بالظلم من كان ثم فأرسل من فوقهم حاصبا يلفهم مثل لف القزم يحض على الصبر أحبارهم وقد ثأجوا كثؤاج الغنم وقال أبو الصلت بن ربيعة الثقفي ويروى لأمية بن أبي الصلت بن أبي ربيعة: إن آيات ربنا باقيات ما يماري فيهن إلا الكفور خلق الليل والنهار فكل مستبين حسابه مقدور ثم يجلو النهار رب رحيم بمهاة شعاعها منشور حبس الفيل بالمغمس حتى صار يحبو كأنه معقور لازما حلقه الجران كما قطر من ظهر كبكب محذور حوله من ملوك كندة أبطال ملاويث في الحروب صقور خلفوه ثم ابذعروا جميعا كلهم عظم ساقه مكسور كل دين يوم القيامة عند الله إلا دين الحنيفة بور وقد قدمنا في تفسير سورة الفتح أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما أطل يوم الحديبية على الثنية التي تهبط به على قريش بركت ناقته فزجروها فألحت فقالوا خلأت القصواء أي حرنت فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم "ما خلأت القصواء وما ذاك لها بخلق ولكن حبسها حابس الفيل - ثم قال - والذي نفسي بيده لا يسألوني اليوم خطة يعظمون فيها حرمات الله إلا أجبتهم إليها" ثم زجرها فقامت. والحديث من أفراد البخاري وفي الصحيحين أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال يوم فتح مكة"إن الله حبس عن مكة الفيل وسلط عليها رسوله والمؤمنين وإنه قد عادت حرمتها اليوم كحرمتها بالأمس ألا فليبلغ الشاهد الغائب". آخر تفسير سورة الفيل ولله الحمد والمنة.

Tafsir Ibn Kathir

Ismail ibn KathirEnglish

Which was revealed in Makkah بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَـنِ الرَّحِيمِ In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful. هَمَّازٍ مَّشَّآءِ بِنَمِيمٍ (Hammaz, going about with slander) (68:11) Ibn `Abbas said, "Humazah Lumazah means one who reviles and disgraces (others)." Mujahid said, "Al-Humazah is with the hand and the eye, and Al-Lumazah is with the tongue." Then Allah says, الَّذِى جَمَعَ مَالاً وَعَدَّدَهُ (Who has gathered wealth and counted it.) meaning, he gathers it piling some of it on top of the rest and he counts it up. This is similar to Allah's saying, وَجَمَعَ فَأَوْعَى (And collect (wealth) and hide it.) (70:18) This was said by As-Suddi and Ibn Jarir. Muhammad bin Ka`b said concerning Allah's statement, جَمَعَ مَالاً وَعَدَّدَهُ (gathered wealth and counted it.) "His wealth occupies his time in the day, going from this to that. Then when the night comes he sleeps like a rotting corpse." Then Allah says, يَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ أَخْلَدَهُ (He thinks that his wealth will make him last forever!) meaning, he thinks that gathering wealth will make him last forever in this abode (the worldly life). كَلاَّ (But no!) meaning, the matter is not as he claims, nor as he reckons. Then Allah says, لَيُنبَذَنَّ فِى الْحُطَمَةِ (Verily, he will be thrown into Al-Hutamah.) meaning, the person who gathered wealth and counted it, will be thrown into Al-Hutamah, which is one of the descriptive names of the Hellfire. This is because it crushes whoever is in it. Thus, Allah says, وَمَآ أَدْرَاكَ مَا الْحُطَمَةُ - نَارُ اللَّهِ الْمُوقَدَةُ - الَّتِى تَطَّلِعُ عَلَى الاٌّفْئِدَةِ (And what will make you know what Al-Hutamah is The fire of Allah, Al-Muqadah, which leaps up over the hearts.) Thabit Al-Bunani said, "It will burn them all the way to their hearts while they are still alive." Then he said, "Indeed the torment will reach them." Then he cried. Muhammad bin Ka`b said, "It (the Fire) will devour every part of his body until it reaches his heart and comes to the level of his throat, then it will return to his body." Concerning Allah's statement, إِنَّهَا عَلَيْهِم مُّؤْصَدَةٌ (Verily, it shall Mu'sadah upon them.) meaning, covering, just as was mentioned in the Tafsir of Surat Al-Balad (see 90:20). Then Allah says, فِى عَمَدٍ مُّمَدَّدَةِ (In pillars stretched forth. ) "Atiyah Al-`Awfi said, "Pillars of Iron." As-Suddi said, "Made of fire." Al-`Awfi reported from Ibn `Abbas, "He will make them enter pillars stretched forth, meaning there will be columns over them, and they will have chains on their necks, and the gates (of Hell) will be shut upon them." This is the end of the Tafsir of Surat Al-Humazah, and all praise and thanks are due to Allah.

Tafsir Ibn Kathir

Salafi Approved
Hafiz Ibn KathirUrdu

ابرہہ اور اس کا حشر :اللہ رب العزت نے قریش پر جو اپنی خاص نعمت انعام فرمائی تھی اس کا ذکر کر رہا ہے کہ جس لشکر نے ہاتھیوں کو ساتھ لے کر کعبے کو ڈھانے کے لیے چڑھائی کی تھی اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے کہ وہ کعبے کے وجود کو مٹائیں ان کا نام ونشان مٹا دیا۔ ان کی تمام فریب کاریاں ان کی تمام قوتیں سلب کرلیں برباد و غارت کردیا یہ لوگ مذہباً نصرانی تھے لیکن دین مسیح کو مسخ کردیا تھا قریباً بت پرست ہوگئے تھے انہیں اس طرح نامراد کرنا یہ گویا پیش خیمہ تھا۔ آنحضرت ﷺ کی بعثت کا اور اطلاع تھی آپ کی آمد آمد کیحضور ﷺ اسی سال تولد ہوئے اکثر تاریخ داں حضرات کا یہی قول ہے تو گویا رب العالم فرما رہا ہے کہ اے قریشیو ! حبشہ کے اس لشکر پر تمہیں فتح تمہاری بھلائی کی وجہ سے نہیں دی گئی تھی بلکہ اس میں ہمارے گھر کا بچاؤ تھا جسے ہم شرف بزرگی عظمت و عزت میں اپنے آخر الزمان پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی نبوت سے بڑھانے والے تھے۔ غرض اصحاب فیل کا مختصر واقعہ تو یہ ہے جو بیان ہوا اور مطول واقعہ اصحاب الاخدود کے بیان میں گذر چکا ہے کہ قبیلہ حمیر کا آخری بادشاہ ذونواس جو مشرک تھا جس نے اپنے زمانے کے مسلمانوں کو کھائیوں میں قتل کیا تھا جو سچے نصرانی تھے اور تعداد میں تقریباً بیس ہزار تھے سارے کے سارے شہید کر دئیے گئے تھے صرف دوس ذو ثعلبان ایک بچ گیا تھا جو ملک شام جا پہنچا اور قیصر روم سے فریاد رسی چاہی۔ یہ بادشاہ نصرانی مذہب پر تھا اس نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو لکھا کہ اس کے ساتھ اپنی پوری فوج کردو اس لیے کہ یہاں سے دشمن کا ملک قریب تھا۔ اس بادشاہ نے ارباط اور ابو یکسوم ابرہہ بن صباح کو امیر لشکر بنا کر بہت بڑا لشکر دے کر دونوں کو اس کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا یہ لشکر یمن پہنچا اور یمن کو اور یمنیوں کو تاخت و تاراج کردیا۔ ذونواس بھاگ کھڑا ہوا اور دریا میں ڈوب کر مرگیا اور ان لوگوں کی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا اور سارے یمن پر شاہ حبشہ کا قبضہ ہوگیا اور یہ دونوں سردار یہاں رہنے سہنے لگے لیکن کچھ تھوڑی مدت کے بعد ان میں ناچاقی ہوگئی آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ دونوں نے آمنے سامنے صفیں باندھ لیں اور لڑنے کے لیے نکل آئے عام حملہ ہونے سے بیشتر ان دونوں سرداروں نے آپس میں کہا کہ فوجوں کو لڑانے اور لوگوں کو قتل کرانے کی کیا ضرورت، آؤ ہم تم دونوں میدان میں نکلیں اور ایک دوسرے سے لڑ کر فیصلہ کرلیں جو زندہ بچ جائے ملک و فوج اس کی۔ چناچہ یہ بات طے ہوگئی اور دونوں میدان میں نکل آئے ارباط نے ابرہہ پر حملہ کیا اور تلوار کے ایک ہی وار سے چہرہ خونا خون کردیا ناک ہونٹ اور منہ کٹ گیا، ابرہہ کے غلام عتودہ نے اس موقعہ پر اریاط پر ایک بےپناہ حملہ کیا اور اسے قتل کردیا ابرہہ زخمی ہو کر میدان سے زندہ واپس گیا۔ علاج معالجہ سے زخم اچھے ہوگئے اور یمن کا یہ مستقل بادشاہ بن بیٹھا۔ نجاشی حبشہ کو جب یہ واقعہ معلوم ہوا تو وہ سخت غصہ ہوا اور ایک خط ابرہہ کو لکھا اسے بڑی لعنت ملامت کی اور کہا کہ قسم اللہ کی میں تیرے شہروں کو پامال کردوں گا۔ اور تیری چوٹی کاٹ لاؤں گا، ابرہہ نے اس کا جواب نہایت عاجزی سے لکھا اور قاصد کو بہت سارے ہدئیے دئیے اور ایک تھیلی میں یمن کی مٹی بھر دی اور اپنی پیشانی کے بال کاٹ کر اس میں رکھ دئیے۔ اور اپنے خط میں اپنے قصوروں کی معافی طلب کی اور لکھا کہ یہ یمن کی مٹی حاضر ہے اور چوٹی کے بال بھی، آپ اپنی قسم پوری کیجئے اور ناراضی معاف فرمائیے اس سے شاہ حبشہ خوش ہوگیا اور یہاں کی سرداری اسی کے نام کردی، اب ابرہہ نے نجاشی کو لکھا کہ میں یہاں یمن میں آپ کے لیے ایک ایسا گرجا تعمیر کررہاں ہو کہ اب تک دنیا میں ایسا نہ بنا ہو اور اس گرجا گھر کا بنانا شروع کیا بڑے اہتمام اور کروفر سے بہت اونچا بہت مضبوط بےحد خوبصورت اور منقش و مزین گرجا بنایا۔ اس قدر بلند تھا کہ چوٹی تک نظر ڈالنے والے کی ٹوپی گر پڑتی تھی اسی لیے عرب اسے قلیس کہتے یعنی ٹوپی پھینک دینے والا۔ اب ابرہہ اشرم کو یہ سوجھی کہ لوگ بجائے کعبۃ اللہ کے حج کے اس کا حج کریں، اپنی ساری مملکت میں اس کی منادی کرادی عدنانیہ اور قحطانیہ عرب کو یہ بہت برا لگا ادھر سے قریش بھی بھڑک اٹھے تھوڑے دن میں کوئی شخص رات کے وقت اس کے اندر گھس گیا اور وہاں پاخانہ کرکے چلا آیا چوکیدار نے جب یہ دیکھا تو بادشاہ کو خبر پہنچائی اور کہا کہ یہ کام قریشیوں کا ہے چونکہ آپ نے ان کا کعبہ روک دیا ہے لہٰذا انہوں نے جوش اور غضب میں آکر یہ حرکت کی ہے ابرہہ نے اسی وقت قسم کھالی کہ میں مکہ پہنچوں گا اور بیت اللہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا اور ایک روایت میں یوں بھی ہے کہ چند ملے جلے نوجوان قریشیوں نے اس گرجا میں آ ۤگ لگا دی تھی اور اس وقت ہوا بھی بہت تیز تھی سارا گرجا جل گیا اور منہ کے بل زمین پر گرگیا اس پر ابرہہ نے بہت بڑا لشکر ساتھ لے کر مکہ پر چڑھائی کی تاکہ کوئی روک نہ سکے اور اپنے ساتھ ایک بڑا اونچا اور موٹا ہاتھی لیا جسے محمود کہا جاتا تھا۔ اس جیسا ہاتھی اور کوئی نہ تھا شاہ حبشہ نے یہ ہاتھی اس کے پاس اسی غرض سے بھیجا تھا آٹھ یا بارہ ہاتھی اور بھی ساتھ تھے یہ کعبے کے ڈھانے کی نیت سے چلا یہ سوچ کر کہ کعبہ کی دیواروں میں مضبوط زنجیریں ڈال دوں گا اور ہاتھیوں کی گردنوں میں ان زنجیروں کو باندھ دوں گا ہاتھی ایک ہی جھٹکے میں چاروں دیواریں بیت اللہ کی جڑ سے گرا دیں گے، جب اہل عرب کو یہ خبریں معلوم ہوئیں تو ان پر بڑا بھاری اثر ہوا انہوں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ خواہ کچھ بھی ہو ہم ضرور اس سے مقابلہ کریں گے اور اسے اس کی اس بدکرداری سے روکیں گے ایک یمنی شریف سردار جو وہاں کے بادشاہوں کی اولاد میں سے تھا جسے ذونفر کہا جاتا تھا یہ کھڑا ہوگیا اپنی قوم کو اور کل آس پاس کے عرب کو جمع کیا اور اس بدنیت بادشاہ سے مقابلہ کیا لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا عربوں کو شکست ہوئی اور ذو نفر اس خبیث کے ہاتھ میں قید ہوگیا اس نے اسے بھی ساتھ لیا اور مکہ شریف کی طرف بڑھا خثم قبیلے کی زمین پر جب یہ پہنچا تو یہاں نفیل بن حبیب خثعمی نے اپنے لشکروں سے اس کا مقابلہ کیا لیکن ابرہہ نے انہیں بھی مغلوب کرلیا اور نفیل بھی قید ہوگیا پہلے تو اس ظالم نے اسے قتل کرنا چاہا لیکن پھر قتل نہ کیا اور قید کرکے ساتھ لے لیا تاکہ راستہ بنائے، جب طائف کے قریب پہنچا تو قبیلہ ثقیف نے اس سے صلح کرلی کہ ایسا نہ ہو ان کے بت خانوں کو جس میں لات نامی بت تھا یہ توڑ دے اس نے بھی ان کی بڑی آؤ بھگت کی انہوں نے ابو رغال کو اس کے ساتھ کردیا کہ یہ تمہیں وہاں کا راستہ بتائے گا۔ ابرہہ جب مکہ کے بالکل قریب معمس کے پہنچا تو اس نے یہاں پڑاؤ کیا اس کے لشکر نے آس پاس مکہ والوں کے جو جانور اونٹ وغیرہ چر چگ رہے تھے سب کو اپنے قبضہ میں کیا ان جانوروں میں دو سو اونٹ تو صرف عبدالمطلب کے تھے اسود بن مقصود جو اس کے لشکر کے ہر اول کا سردار تھا اس نے ابرہہ کے حکم سے ان جانوروں کو لوٹا تھا، جس پر عرب شاعروں نے اس کی ہجو میں اشعار تصنیف کئے ہوئے ہیں جو سیرۃ ابن اسحاق میں موجود ہیں، اب ابرہہ نے اپنا قاصد حناطہ حمیری مکہ والوں کے پاس بھیجا کہ مکہ کے سب سے بڑے سردار کو میرے پاس لاؤ اور یہ بھی اعلان کردو کہ میں مکہ والوں سے لڑنے نہیں آیا میرا ارادہ صرف بیت اللہ کو گرانے کا ہے ہاں اگر مکہ والے اس کے بچانے کے درپے ہوئے تو لامحالہ مجھے ان سے لڑائی کرنی پڑے گی، حناطہ جب مکہ میں آیا اور لوگوں سے ملا جلا تو معلوم ہوا کہ یہاں کا بڑا سردار عبدالمطلب بن ہاشم ہے، یہ عبدالمطلب سے ملا اور شاہی پیغام پہنچایا جس کے جواب میں عبدالمطلب نے کہا واللہ نہ ہمارا ارادہ اس سے لڑنے کا ہے نہ ہم میں اتنی طاقت ہے یہ اللہ کا حرمت والا گھر ہے اس کے خلیل حضرت ابراہیم کی زندہ یادگار ہے اللہ اگر چاہے گا تو اپنے گھر کی آپ حفاظت کرے گا، ورنہ ہم میں تو ہمت و قوت نہیں۔ حناطہ نے کہا اچھا تو آپ میرے ساتھ بادشاہ کے پاس چلے چلئے عبدالمطلب ساتھ ہوئے، بادشاہ نے جب انہیں دیکھا تو ہیبت میں آگیا عبدالمطلب گورے چٹے سڈول اور مضبوط قوی والے حسین و جمیل انسان تھے، دیکھتے ہی ابرہہ تخت سے نیچے اتر آیا اور فرش پر عبدالمطلب کے ساتھ بیٹھ گیا اور اپنے ترجمان سے کہا کہ ان سے پوچھ کہ کیا چاہتا ہے ؟ عبدالمطلب نے کہا میرے دو سو اونٹ جو بادشاہ نے لے لئے ہیں انہیں واپس کردیا جائے بادشاہ نے کہا ان سے کہہ دے کہ پہلی نظر میں تیرا رعب مجھ پر پڑا تھا اور میرے دل میں تیری وقعت بیٹھ گئی تھی لیکن پہلے ہی کلام میں تو نے سب کچھ کھو دی اپنے دو سو اونٹ کی تو تجھے فکر ہے اور اپنے اور اپنی قوم کے دین کی تجھے فکر نہیں میں تو تم لوگوں کا عبادت خانہ توڑنے اور اسے خاک میں ملانے کے لیے آیا ہوں۔ عبدالمطلب نے جواب دیا کہ سن بادشاہ اونٹ تو میرے ہیں اس لیے انہیں بچانے کی کوشش میں میں ہوں اور خانہ کعبہ اللہ کا ہے وہ خود اسے بچالے گا اس پر یہ سرکش کہنے لگا کہ اللہ بھی آج اسے میرے ہاتھ سے نہیں بچا سکتا، عبدالمطلب نے کہا بہتر ہے وہ جانے اور تو جان، یہ بھی مروی ہے کہ مکہ نے تمام حجاز کا تہائی مال ابرہہ کو دینا چاہا کہ وہ اپنے اس بد ارادہ سے باز آئے لیکن اس نے قبول نہ کیا خیر عبدالمطلب تو اپنے اونٹ لے کر چل دئیے اور آکر قریش کو حکم دیا کہ مکہ بالکل خالی کردو پہاڑوں میں چلے جاؤ، اب عبدالمطلب اپنے ساتھ قریش کے چیدہ چیدہ لوگوں کو لے کر بیت اللہ میں آیا اور بیت اللہ کے دروازہ کا کنڈا تھام کر رو رو کر اور گڑگڑا گڑگڑا کر دعائیں مانگنی شروع کیں کہ باری تعالیٰ ابرہہ اور اس کے خونخوار لشکر سے اپنے پاک اور ذی عزت گھر کو بچا لے عبدالمطلب نے اس وقت یہ دعائیہ اشعار پڑھے۔ لا ھم ان المرایم نع رحلہ فامنع رحالک لا یغلبن صلیبھم ومحالھم ابدا محالک یعنی ہم بےفکر ہیں ہم جانتے ہیں کہ ہر گھر والا اپنے گھر کا بچاؤ آپ کرتا ہے اے اللہ تو بھی اپنے گھر کو اپنے دشمنوں سے بچا یہ تو ہرگز نہیں ہوسکتا کہ ان کی صلیب اور ان کی ڈولیں تیری ڈولوں پر غالب آجائیں۔ اب عبدالمطلب نے بیت اللہ کے دروازے کا کنڈا ہاتھ سے چھوڑ دیا اور اپنے تمام ساتھیوں کو لے کر آس پاس کے پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ گیا یہ بھی مذکور ہے کہ جاتے ہوئے قربانی کے سو اونٹ بیت اللہ کے ارد گرد نشان لگا کر چھوڑ دئیے تھے اس نیت سے کہ اگر یہ بددین آئے اور انہوں نے اللہ کے نام کی قربانی کے ان جانوروں کو چھیڑا تو عذاب الٰہی ان پر اترے گا، دوسری صبح ابرہہ کے لشکر میں مکہ جانے کی تیاریاں ہونے لگیں اپنا خاص ہاتھی جس کا نام محمود تھا اسے تیار کیا لشکر میں کمر بندی ہوچکی تھی اور مکہ شریف کی طرف منہ اٹھا کر چلنے کی تیاری کی اس وقت نفیل بن حبیب جو اس سے راستے میں لڑا تھا اور اب بطور قیدی کے اس کے ساتھ تھا وہ آگے بڑھا اور شاہی ہاتھی کا کان پکڑ لیا اور کہا محمود بیٹھ جا اور جہاں سے آیا ہے وہیں خیریت کے ساتھ چلا جاتو اللہ تعالیٰ کے محترم شہر میں ہے یہ کہہ کر کان چھوڑ دیا اور بھاگ کر قریب کی پہاڑی میں جا چھپا، محمود ہاتھی یہ سنتے ہی بیٹھ گیا، اب ہزار جتن فیلبان کررہے ہیں لشکری بھی کوششیں کرتے کرتے تھک گئے لیکن ہاتھی اپنی جگہ سے ہلتا ہی نہیں، سر پر آنکس مار رہے ہیں ادھر ادھر سے بھالے اور برچھے مار رہے ہیں آنکھوں میں آنکس ڈال رہے ہیں غرض تمام جتن کر لئے لیکن ہاتھی جنبش بھی نہیں کرتا پھر بطور امتحان کے اس کا منہ یمن کی طرف کرکے چلانا چاہا تو جھٹ سے کھڑا ہو کر دوڑتا ہوا چل دیا شام کی طرف چلانا چاہاتو بھی پوری طاقت سے آگے بڑھ گیا، مشرق کی طرف لے جانا چاہا تو بھی بھاگا بھاگا گیا پھر مکہ شریف کی طرف منہ کرکے آگے بڑھانا چاہا وہیں بیٹھ گیا، انہوں نے پھر اسے مارنا شروع کیا دیکھا کہ ایک گھٹا ٹوپ پرندوں کا جھرمٹ بادل کی طرح سمندر کے کنارے کی طرف سے امڈا چلا آرہا ہے ابھی پوری طرح دیکھ بھی نہیں پائے تھے کہ وہ جانور سر پر آگئے چاروں طرف سے سارے لشکر کو گھیر لیا اور ان میں ہر ایک کی چونچ میں ایک مسر یا ماش کے دانے برابر کنکری تھی، اور دونوں پنجوں میں دو دو کنکریاں تھیں یہ ان پر پھینکنے لگے جس پر یہ کنکری آن پڑی وہ وہیں ہلاک ہوگیا، اب تو اس لشکر میں بھاگڑ پڑگئی ہر ایک نفیل نفیل کرنے لگا کیونکہ اسے ان لوگوں نے اپنا راہبر اور راستے بتانے والاسمجھ رکھا تھا نفیل تو ہاتھی کو کہہ کر پہاڑ پر چڑھ گیا اور دیگر اہل مکہ ان لوگوں کی یہ درگت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور نفیل وہیں کھڑا یہ اشعار پڑھ رہا تھا۔ این المفر والا لہ الطالب والاشرم المغلوب لیس الغالب اب جائے پناہ کہاں ہے ؟ جبکہ اللہ خود تاک میں لگ گیا ہے سنو اشرم بدبخت مغلوب ہوگیا اب یہ پنپنے کا نہیں اور بھی نفیل نے اس واقعہ کے متعلق بہت سے اشعار کہے ہیں جن میں اس واقعہ کو بیان کیا ہے اور کہا ہے کاش کہ تو اس وقت موجود ہوتا جبکہ ان ہاتھی والوں کی شامت آئی ہے اور وادی محصب میں ان پر عذاب کے سنگریزے برسے ہیں تو اس وقت تو اس اللہ کے لشکر یعنی پرندوں کو دیکھ کر قطعاً سجدے میں گرپڑتا ہم تو وہاں کھڑے حمد رب کی راگنیاں الاپ رہے تھے گو کلیجے ہمارے بھی اونچے ہوگئے تھے کہ کہیں کوئی کنکری ہمارا کام بھی تمام نہ کر دے نصرانی منہ موڑے بھاگ رہے تھے اور نفیل نفیل پکار رہے تھے۔ گویا کہ نفیل پر ان کے باپ دادوں کا کوئی قرض تھا واقدی فرماتے ہیں یہ پرندے زرد رنگ کے تھے کبوتر سے کچھ چھوٹے تھے ان کے پاؤں سرخ تھے اور روایت میں ہے کہ جب محمود ہاتھی بیٹھ گیا اور پوری کوشش کے باوجود بھی نہ اٹھا تو انہوں نے دوسرے ہاتھی کو آگے کیا اس نے قدم بڑھایا ہی تھا کہ اس کی پیشانی پر کنکری پڑی اور بلبلا کر پیچھے ہٹا اور پھرا اور ہاتھی بھی بھاگ کھڑے ہوئے ادھر برابر کنکریاں آنے لگیں اکثر تو وہیں ڈھیر ہوگئے اور بعض جو ادھر ادھر بھاگ نکلے گا ان میں سے کوئی جانبر نہ ہوا بھاگتے بھاگتے ان کے اعضاء کٹ کر گر تے جاتے تھے اور بالآخر جان سے جاتے تھے ابرہہ بادشاہ بھی بھاگا لیکن ایک ایک عضو بدن جھڑنا شروع ہوا یہاں تک کہ خثعم کے شہروں میں سے صنعا میں جب وہ پہنچا تو بالکل گوشت کا لوتھڑا بنا ہوا تھا وہیں بلک بلک کر دم توڑا اور کتے کی موت مرا دل تک پھٹ گیا قریشیوں کو بڑا مال ہاتھ لگا، عبدالمطلب نے تو سونے سے ایک کنواں پر کرلیا تھا، زمین عرب میں آبلہ اور چیچک اسی سال پیدا ہوتے ہوئے دیکھے گئے اور اسی طرح سپند اور حنظل وغیرہ کے کڑوے درخت بھی اسی سال زمین عرب میں دیکھے گئے ہیں پس اللہ تعالیٰ بزبان رسول معصوم ﷺ اپنی یہ نعمت یاد دلاتا ہے اور گویا فرمایا جارہا ہے کہ اگر تم میرے گھر کی اسی طرح عزت و حرمت کرتے رہتے اور میرے رسول کو مانتے تو میں بھی اسی طرح تمہاری حفاظت کرتا اور تمہیں دشمنوں سے نجات دیتا ابابیل جمع کا صیغہ ہے اس کا واحد لغت عرب میں پایا نہیں گیا، سجیل کے معنی ہیں بہت ہی سخت اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ دو فارسی لفظوں سے مرکب ہے یعنی سنگ اور گل سے یعنی مٹی اور پتھر غرض سجیل وہ ہے جس میں پتھر معہ مٹی کے ہو، عصف جمع ہے عصفۃ کی کھیتی کے ان پتوں کو کہتے ہیں جو پک نہ گئے ہوں۔ ابابیل کے معنی ہیں گروہ گروہ جھنڈ بہت سارے پے در پے جمع شدہ ادھر ادھر سے آنے والے بعض نحوی کہتے ہیں اس کا واحد ابیل ہے ابن عباس ؓ فرماتے ہیں ان پر ندوں کی چونچ تھی پرندوں جیسی اور پنجے کتوں جیسے عکرمہ فرماتے ہیں یہ سبز رنگ کے پرند تھے جو سمندر سے نکلے تھے ان کے سر درندوں جیسے تھے اوراقوال بھی ہیں یہ پرند باقاعدہ ان لشکریوں کے سروں پر پرے باندھ کر کھڑے ہوگئے اور پھر چیخنے لگے پھر پتھر کیا جس کے سر میں لگا اس کے نیچے سے نکل گیا اور دو ٹکڑے ہو کر زمین پر گرا جس کے جس عضو پر گرا وہ عضو ساقط ہوگیا ساتھ ہی تیز آندھی آئی جس سے اور آس پاس کے کنکر بھی ان کی آنکھوں میں گھس گئے اور سب تہہ وبالا ہوگئے عصف کہتے ہیں چارے کو اور کٹی کھیتی کو اور گیہوں کے درخت کے پتوں کو اور ماکول سے مراد ٹکڑے ٹکڑے کیا ہوا ہے حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ عصف کہتے ہیں بھوسی کو جوا ناج کے دانوں کے اوپر ہوتی ہے ابن زید فرماتے ہیں مراد کھیتوں کے وہ پتے ہیں جنھیں جانور چرچکے ہوں مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ان کو تہس نہس کردیا اور عام خاص کو ہلاک کردیا اس کی ساری تدبیریں الٹ ہوگئیں کوئی بھلائی انہیں نصیب نہ ہوئی ایسا بھی کوئی ان پر صحیح سالم نہ رہا جو کہ ان کی خبر پہنچائے، جو بھی بچا وہ زخمی ہو کر اور اس زخم سے پھر جاں بر نہ ہوسکا، خود بادشاہ بھی گو وہ ایک گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہوگیا تھا جوں توں صنعا میں پہنچا لیکن وہاں جاتے ہی اس کا کلیجہ پھٹ گیا اور واقعہ بیان کر ہی چکا تھا کہ مرگیا، اس کے بعد اسکا لڑکا یکسو یمن کا بادشاہ بنا پھر اس کے دوسرے بھائی مسروق بن ابرہہ کو سلطنت ملی اب سیب بن ذویزن حمیری کسریٰ کے دربار میں پہنچا اور اس سے مدد طلب کی تاکہ وہ اہل حبشہ سے لڑے اور یمن ان سے خالی کرالے کسریٰ نے اس کے ساتھ ایک لشکر جرار کردیا اس لشکر نے اہل حبشہ کو شکست دی اور ابرہہ کے خاندان سے سلطنت نکل گئی اور پھر قبیلہ حمیر یہاں کا بادشاہ بن گیا عربوں نے اس پر بڑی خوشی منائی اور چاروں طرف سے مبارکبادیاں وصول ہوئیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا بیان ہے کہ ابرہہ کے لشکر کے فیلبان اور چرکٹے کو میں نے مکہ شریف میں دیکھا دونوں اندھے ہوگئے تھے چل پھر نہیں سکتے تھے اور بھیک مانگا کرتے تھے حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ فرماتے ہیں اساف اور نائلہ بتوں کے پاس یہ بیٹھے رہتے تھے جہاں مشرکین اپنی قربانیاں کرتے تھے اور لوگوں سے بھیک مانگتے پھرتے تھے اس فیلبان کا نام انیسا تھا، بعض تاریخوں میں یہ بھی ہے کہ ابرہہ خواد اس چڑھائی میں نہ تھا بلکہ اس نے اپنے لشکر کو بہ ماتحتی شمس بن مقصود کے بھیجا تھا یہ لشکر بیس ہزار کا تھا اور یہ پرند ان کے اوپر رات کے وقت آئے تھے اور صبح تک ان سب کا ستیا ناس ہوچکا تھا لیکن یہ روایت بہت غریب ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ خود ابرہہ اشرم حبشی ہی اپنے ساتھ لشکر لے کر آیا تھا یہ ممکن ہے کہ اس کے ہر اول کے دستہ پر یہ شخص سردر ہو، اس واقعہ کو بہت سے عرب شاعروں نے اپنے شعروں میں بھی بسط کے ساتھ بیان کیا ہے، سورة فتح کی تفسیر میں ہم اس واقعہ کو مفصل بیان کر آئے ہیں جس میں ہے کہ جب حدیبیہ والے دن رسول اللہ ﷺ اس ٹیلے پر چڑھے جہاں سے آپ قریشیوں پر جانے والے تھے تو آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی لوگوں نے اسے ڈانٹا ڈپٹا لیکن وہ نہ اٹھی لوگ کہنے لگے قصواء تھک گئی آپ نے فرمایا یہ تھکی نہ اس میں اڑنے کی عادت ہے اسے اس اللہ نے روک لیا ہے جس نے ہاتھیوں کو روک لیا تھا پھر فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مکہ والے جن شرائط پر مجھ سے صلح چاہیں گے میں سب مان لوں گا بشرطیکہ اللہ کی حرمتوں کی ہتک اس میں نہ ہو پھر آپ نے اسے ڈانٹا تو وہ فورا اٹھ کھڑی ہوگی۔ یہ حدیث صحیح بخاری مسلم کی اور ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ پر سے ہاتھیوں کو روک لیا اور اپنے نبی کو وہاں کا قبضہ دیا اور اپنے ایماندار بندوں کو، سنو آج اس کی حرمت ویسی ہی لوٹ کر آگئی ہے جیسے کل تھی، خبر دار ہر حاضر کو چاہیے کہ غیر حاضر کو پہنچا دے اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے سورة فیل کی تفسیر ختم ہوئی۔

Additional Authentic Tafsir Resources

Access comprehensive classical Tafsir works recommended by scholars, available online for free

Tafsir Ibn Kathir

The greatest of tafseers - interprets Quran with Quran, Sunnah, Salaf statements, and Arabic

Complete EnglishMost Authentic

Tafsir As-Sa'di

Excellent tafsir by Shaykh Abdur-Rahman As-Sa'di - simple expressions with tremendous knowledge

Complete 10 VolumesSimple & Clear

Tafsir At-Tabari

Comprehensive and all-inclusive tafsir by Ibn Jarir At-Tabari - earliest major running commentary

Abridged EnglishComprehensive

Tafsir Al-Baghawi

Trustworthy classical tafsir - Ma'alim al-Tanzil by Al-Husayn ibn Mas'ud al-Baghawi

Partial EnglishClassical

Scholarly Recommendation: These four tafseers are highly recommended by scholars. Tafsir Ibn Kathir is considered the greatest for its methodology of interpreting Quran with Quran, then Sunnah, then Salaf statements, and finally Arabic language. Tafsir As-Sa'di is excellent for its clarity and simple expressions. All sources are authentic and freely accessible.

Hadith References

Access authentic hadith references and scholarly commentary linked to this verse from trusted Islamic sources

Opens interactive viewer with embedded content from multiple sources

Quick Links to External Sources:

💡 Tip: Click "View Hadith References" to see embedded content from multiple sources in one place. External links open in new tabs for direct access.

Additional Tafsir Resources (Altafsir.com)

Access 7+ classical tafsir commentaries and historical context from the Royal Aal al-Bayt Institute

Classical Tafsir Commentaries:

Links open in a new tab. Content provided by the Royal Aal al-Bayt Institute for Islamic Thought.