Al-A'raaf 164Juz 9

Ayah Study

Surah Al-A'raaf (سُورَةُ الأَعۡرَافِ), Verse 164

Ayah 1118 of 6236 • Meccan

وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌۭ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا ۙ ٱللَّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًۭا شَدِيدًۭا ۖ قَالُوا۟ مَعْذِرَةً إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ

Translations

The Noble Quran

English

And when a community among them said: "Why do you preach to a people whom Allâh is about to destroy or to punish with a severe torment?" (The preachers) said: "In order to be free from guilt before your Lord (Allâh), and perhaps they may fear Allâh."

Muhammad Asad

English

For thus do We requite all who invent [such] falsehood.

Fatah Muhammad Jalandhari

Urdu

اور جب ان میں سے ایک جماعت نے کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جن کو الله ہلاک کرنے والا یا سخت عذاب دینے والا ہے تو انہوں نے کہا اس لیے کہ تمہارے پروردگار کے سامنے معذرت کرسکیں اور عجب نہیں کہ وہ پرہیزگاری اختیار کریں

Tafsir (Commentary)

Tafsir al-Sa'di

Salafi Approved
Abdur-Rahman ibn Nasir al-Sa'diArabic

معظمهم اعتدوا وتجرؤوا، وأعلنوا بذلك. وفرقة أعلنت بنهيهم والإنكار عليهم. وفرقة اكتفت بإنكار أولئك عليهم، ونهيهم لهم، وقالوا لهم: لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا اللَّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا كأنهم يقولون: لا فائدة في وعظ من اقتحم محارم اللّه، ولم يصغ للنصيح، بل استمر على اعتدائه وطغيانه، فإنه لا بد أن يعاقبهم اللّه، إما بهلاك أو عذاب شديد. فقال الواعظون: نعظهم وننهاهم مَعْذِرَةً إِلَى رَبِّكُمْ أي: لنعذر فيهم. وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ أي: يتركون ما هم فيه من المعصية، فلا نيأس من هدايتهم، فربما نجع فيهم الوعظ، وأثر فيهم اللوم. وهذا المقصود الأعظم من إنكار المنكر ليكون معذرة، وإقامة حجة على المأمور المنهي، ولعل اللّه أن يهديه، فيعمل بمقتضى ذلك الأمر، والنهي.

Tafsir al-Muyassar

Salafi Approved
Committee of Saudi ScholarsArabic

واذكر -أيها الرسول- إذ قالت جماعة منهم لجماعة أخرى كانت تعظ المعتدين في يوم السبت، وتنهاهم عن معصية الله فيه: لِمَ تعظون قومًا الله مهلكهم في الدنيا بمعصيتهم إياه أو معذبهم عذابا شديدًا في الآخرة؟ قال الذين كانوا ينهَوْنهم عن معصية الله: نَعِظهم وننهاهم لِنُعْذَر فيهم، ونؤدي فرض الله علينا في الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، ورجاء أن يتقوا الله، فيخافوه، ويتوبوا من معصيتهم ربهم وتعذِّيهم على ما حرَّم عليهم.

Tafsir Ibn Kathir

Salafi Approved
Hafiz Ibn KathirArabic

يخبر تعالى عن أهل هذه القرية أنهم صاروا إلى ثلاث فرق فرقة ارتكبت المحذور واحتالوا على اصطياد السمك يوم السبت كما تقدم بيانه في سورة البقرة وفرقة نهت عن ذلك واعتزلتهم وفرقة سكتت فلم تفعل ولم تنه ولكنها قالت للمنكرة "لم تعظون قوما الله مهلكم أو معذبهم عذابا شديدا" أي لم تنهون هؤلاء وقد علمتم أنهم قد هلكوا واستحقوا العقوبة من الله فلا فائدة في نهيكم إياهم؟ قالت لهم المنكرة "معذرة إلى ربكم" قرأ بعضهم بالرفع كأنه على تقدير هذا معذرة وقرأ آخرون بالنصب أي نفعل ذلك "معذرة إلى ربكم" أي فيما أخذ علينا من الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر "ولعلهم يتقون" يقولون ولعل لهذا الإنكار يتقون ما هم فيه ويتركونه ويرجعون إلى الله تائبين فإذا تابوا تاب الله عليهم ورحمهم.

Tafsir Ibn Kathir

Ismail ibn KathirEnglish

Those Who breached the Sabbath were turned into Monkeys, butThose Who prohibited Their Actions were saved Allah said that the people of this village were divided into three groups, a group that committed the prohibition, catching fish on the Sabbath, as we described in the Tafsir of Surat Al-Baqarah. Another group prohibited them from transgression and avoided them. A third group neither prohibited them, nor participated in their action. The third group said to the preachers, لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا اللَّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَاباً شَدِيدًا ("Why do you preach to a people whom Allah is about to destroy or to punish with a severe torment"). They said, `why do you forbid these people from evil, when you know that they are destroyed and have earned Allah's punishment' Therefore, they said, there is no benefit in forbidding them. The preachers replied, مَعْذِرَةً إِلَى رَبِّكُمْ ("In order to be free from guilt before your Lord (Allah),") `for we were commanded to enjoin righteousness and forbid evil,' r وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ("and perhaps they may fear Allah") for on account of our advice, they might stop this evil and repent to Allah. Certainly, if they repent to Allah, Allah will accept their repentance and grant them His mercy.' Allah said, فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُكِّرُواْ بِهِ (So when they forgot the reminder that had been given to them, ) when the evil doers refused the advice, أَنجَيْنَا الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُواْ (We rescued those who forbade evil, but We seized who did wrong,) who committed the transgression, بِعَذَابٍ بَئِيسٍ (with a severe torment). Allah stated that those who enjoined good were saved, while those who committed the transgression were destroyed, but He did not mention the end of those who were passive (the third group), for the compensation is comparable to the deed. This type did not do what would warrant praise, nor commit wrong so that they are admonished. `Ikrimah said, "Ibn `Abbas said about the Ayah: `I do not know whether or not the people were saved who said; لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا اللَّهُ مُهْلِكُهُمْ ("Why do you preach to a people whom Allah is about to destroy...") So I continued discussing it with him until I convinced him that they were. Then he gave me the gift of a garment." Allah said, وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُواْ بِعَذَابٍ بَئِيسٍ (and We seized those who did wrong with a Ba'is torment) indicating that those who remained were saved. As for `Ba'is', it means `severe', according to Mujahid, or `painful', according to Qatadah. These meanings are synonymous, and Allah knows best. Allah said next, خَـسِئِينَ (despised), humiliated, disgraced and rejected.

Tafsir Ibn Kathir

Salafi Approved
Hafiz Ibn KathirUrdu

اصحاب سبت جس بستی کے لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے ان کے تین گروہ ہوگئے تھے ایک تو حرام شکار کھیلنے والا اور حیلے حوالوں سے مچھلی پکڑنے والا۔ دوسرا گروہ انہیں روکنے والا اور ان سے بیزاری ظاہر کر کے ان سے الگ ہوجانے والا اور تیسرا گروہ چپ چاپ رہ کر نہ اس کام کو کرنے والا نہ اس سے روکنے والا جیسے کہ سورة بقرہ کی تفسیر میں ہم خلاصہ وار بیان کر آئے ہیں۔ جو لوگ خاموش تھے نہ برائی کرتے تھے نہ بروں کو برائی سے روکتے تھے انہوں نے روکنے والوں کو سمجھانا شروع کیا کہ میاں ان لوگوں کو کہنے سننے سے کیا فائدہ ؟ انہوں نے تو اللہ کے عذاب مول لے لئے ہیں رب کے غضب کیلئے تیار ہوگئے ہیں اب تم ان کے پیچھے کیوں پڑے ہو ؟ تو اس پاک گروہ نے جواب دیا کہ اس میں دو فائدے ہیں ایک تو یہ کہ اللہ کے پاس ہم معذرت خواہ ہوجائیں کہ ہم اپنا فرض برابر ادا کرتے رہے انہیں ہر وقت سمجھاتے بجھاتے رہے۔ معذرت کے پیش سے بھی ایک قرأت ہے تو گوایا ھذا کا لفظ یہاں مقرر مانا یعنی انہوں نے کہا یہ ہماری معذرت ہے اور زبر کی قرأت پر یہ مطلب ہے کہ ہم جو انہیں روک رہے ہیں یہ کام بطور اس کے کر رہے ہیں کہ اللہ کے ہاں ہم پر الزام نہ آئے کیونکہ اللہ کا حکم ہے کہ ہمیشہ نیکی کا حکم کرتے رہو اور برائی سے روکتے رہو، دوسرا فائدہ اس میں یہ ہے کہ بہت ممکن ہے کسی وقت کی نصیحت ان پر اثر کر جائے یہ لوگ اپنی اس حرام کاری سے باز آجائیں اللہ سے توبہ کریں تو اللہ تعالیٰ بھی ان پر مہربانی کرے اور ان کے گناہ معاف فرما دے۔ آخر کار ان کی نصیحت خیر خواہی بھی بےنتیجہ ثابت ہوئی۔ ان بدکاروں نے ایک نہ مانی تو ہم نے اس مسلم گروہ کو تو جو برابر ان سے نالاں رہا ان سے الگ رہا اور انہیں سمجھتا بجھتا رہا نجات دے دی اور باقی کے ظالموں کو جو ہماری نافرمانیوں کے مرتکب تھے اپنے بدترین عذابوں سے پکڑ لیا۔ عبارت کی عمدگی ملاحظہ ہو کہ روکنے والوں کی نجات کا کھلے لفظوں میں اعلان کیا ظالموں کی ہلاکت کا بھی غیر مشتبہ الفاظ میں بیان کیا اور چپ رہنے والوں کے حالات سے سکوت کیا گیا، اس لئے کہ ہر عمل کی جزا اسی کی ہم جنس ہے۔ یہ لوگ نہ تو اس ظلم عظیم میں شریک تھے کہ ان کی مذمت اعلانیہ کی جائے نہ دلیری سے روکتے تھے کہ صاف طور پر قابل تعریف ٹھہریں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جو گروہ ممانعت کرنے کے بعد تھک کر بیٹھ گیا تھا اور پھر روکنا جھوڑ دیا تھا اللہ کا عذاب جب آیا تو یہ گروہ بھی اس عذاب سے بچ گیا صرف وہی ہلاک ہوئے جو گناہ میں مبتلا تھے۔ آپ کے شاگرد حضرت عکرمہ کا بیان ہے کہ پہلے حضرت ابن عباس کو اس میں بڑا تردد تھا کہ آیا یہ لوگ ہلاک ہوئے یا بچ گئے یہاں تک کہ ایک روز میں آیا تو دیکھا کہ قرآن گود میں رکھے ہوئے رو رہے ہیں۔ اول اول تو میرا حوصلہ نہ پڑا کہ سامنے آؤں لیکن دیر تک جب یہی حالت رہی تو میں نے قریب آکر سلام کیا بیٹھ گیا اور رونے کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا دیکھو یہ سورة اعراف ہے اس میں ایلہ کے یہودیوں کا ذکر ہے کہ انہیں ہفتے کے روز مچھلی کے شکار کی ممانعت کردی گئی اور ان کی آزمائش کے لئے مچھلیوں کو حکم ھوا کہ وہ صرف ہفتے کے دن ہی نکلیں ہفتے کے دن دریا مچھلیوں سے بھرے رہتے تھے۔ ترو تازہ موٹی اور عمدہ بکثرت مچھلیاں پانی کے اوپر اجھلتی کودتی رہتی تھیں اور دنوں میں سخت کوشش کے باوجود بھی نہ ملتی تھیں۔ کچھ دنوں تو ان کے دلوں کے اندر حکم الٰہی کی عظمت رہی اور یہ ان کے پکڑنے سے رکے رہے لیکن پھر شیطان نے ان کے دل میں یہ قیاس ڈال دیا کہ اس دن منع کھانے سے ہے تم نے آج کھانا نہیں۔ پکڑ لو اور جائز دن کھا لینا۔ سچے مسلمانوں نے انہیں اس حیلہ جوئی سے ہرچند روکا اور سمجھایا کہ دیکھو شکار کھیلنا شروع نہ کرو شکار اور کھانا دونوں منموع ہیں۔ اگلے جمعہ کے دن جو جماعت شیطانی پھندے میں پھنس چکی تھی وہ اپنے بال بچوں سمیت شکار کو نکل کھڑی ہوئی۔ باقی کے لوگوں کی دو جماعتیں بن گئیں ایک ان کے دائیں ایک بائیں۔ دائیں جانب والی تو برابر انہیں روکتی رہی کہ اللہ سے ڈرو اور اللہ کے عذابوں کے لئے تیاری نہ کرو۔ بائیں والوں نے کہا میاں تمہیں کیا پڑی ؟ یہ تو خراب ہونے والے ہیں اب تم انہیں نصیحت کر کے کیا لو گے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ خیر اللہ کے ہاں ہم تو چھوٹ جائیں گے اور ہمیں تو اب تک مایوسی بھی نہیں کیا عجب کہ یہ لوگ سنور جائیں تو ہلاکت اور عذاب سے محفوظ رہیں۔ ہماری تو عین منشا یہ ہے لیکن یہ بدکار اپنی بےایمانی سے باز نہ آئے اور نصیحت انہیں کار گر نہ ہوئی تو دائیں طرف کے لوگوں نے کہا تم نے ہمارا کہا نہ مانا۔ اللہ کی نافرمانی کی، ارتکاب حرمت کیا۔ عجب نہیں راتوں رات تم پر کوئی عذاب رب آئے۔ اللہ تمہیں زمین میں دھنسا دے یا تم پر پتھر برسا دے یا کسی اور طرح تمہیں سزا دے۔ رات ہم تو یہیں گذاریں گے تمہارے ساتھ شہر میں نہیں رہیں گے۔ جب صبح ہوگئی اور شہر کے دروازے نہ کھلے تو انہوں نے کواڑ کھٹ کھٹائے، آوازیں دیں لیکن کوئی جواب نہ آیا آخر سیڑھی لگا کر ایک شخص کو قلعہ کی دیوار پر چڑھایا اس نے دیکھا تو حیران ہوگیا کہ سب لوگ بندر بنا دیئے گئے۔ اس نے ان سب مسلمانوں کو خبر دی۔ یہ دروازے توڑ کر اندر گئے تو دیکھا کہ سب دم دار بندر بن گئے ہیں یہ تو کسی کو پہچان نہ سکے لیکن وہ پہچان گئے ہر بندر اپنے اپنے رشتے دار کے قدموں میں لوٹنے لگا ان کے کپڑے پکڑ پکڑ کر رونے لگا تو انہوں نے کہا دیکھو ہم تو تمہیں منع کر رہے تھے لیکن تم نے مانا ہی نہیں۔ وہ اپنا سر ہلاتے تھے کہ ہاں ٹھیک ہے ہمارے اعمال کی شامت نے ہی ہمیں برباد کیا ہے۔ تو اب یہ تو قرآن میں ہے کہ روکنے والے نجات یافتہ ہوئے لیکن یہ بیان نہیں کہ جو روکنے والوں کو منع کرتے تھے ان کا کیا حشر ہوا ؟ اب ہم بھی بہت سی خلاف باتیں دیکھتے ہیں اور کچھ نہیں کرسکتے، میں نے آپ سے یہ سن کر کہا اللہ مجھے آپ پر نثار کر دے آپ یہ تو دیکھئے کہ وہ لوگ ان کے اس فعل کو برا سمجھتے رہے تھے ان کی مخالفت کرتے تھے جانتے تھے کہ یہ ہلاک ہونے والے ہیں ظاہر ہے کہ یہ بچ گئے، آپ کی سمجھ میں آگیا اور اسی وقت حکم دیا کہ مجھے دو چادریں انعام میں دی جائیں۔ الغرض اس بیچ کی جماعت کی نسبت ایک قول تو یہ ہے کہ عذاب سے بچ گئی دوسرا قول یہ ہے کہ عذاب ان پر بھی آیا۔ ابن رومان فرماتے ہیں کہ ہفتے والے دن خوب مچھلیاں آتیں پانی ان سے بھر جاتا پھر بیچ کے کسی دن نظر نہ آتیں دوسرے ہفتے کو پھر یہی حال ہوتا، سب سے پہلے ایک شخص نے یہ حیلہ نکالا کہ ڈور اور کانٹا تیار کیا، مچھلی کو اس میں ہفتے کے دن پھنسا لیا اور پانی میں ہی چھوڑ دیا اتوار کی رات کو جا کر نکال لیں بھونا لوگوں کو مچھلی کی خوشبو پہنچی تو سب نے گھیر لیا۔ ہرچند پوچھا لیکن اول تو یہ سختی سے انکار کرتا رہا آخر اسنے بات بنادی کہ دراصل ایک مچھلی کا چھلکا مجھے مل گیا تھا میں نے اسے بھونا تھا، دوسرے ہفتے کے دن اس نے اسی طرح دو مچھلیاں پھانس لیں اتوار کی رات کو نکال کر بھوننے لگا لوگ آگئے تو اس نے کہا میں نے ایک ترکیب نکال لی ہے جس سے نافرمانی بھی نہ ہو اور کام بھی نہ رکے اب جو حیلہ بیان کیا تو ان سب نے اسے پسند کیا اور اکثر لوگ یونہی کرنے لگے۔ یہ لوگ رات کو شہر پناہ کے پھاٹک بند کر کے سوتے تھے جس رات عذاب آیا حسب دستور یہ شہر پناہ کے پھاٹک لگا کر سوئے تھے۔ صبح کو جب باہر والے شہر میں داخل ہونے کو آئے تو خلاف معمول اب تک دروازے بند پائے آوازیں دیں کوئی جواب نہ ملا قلعہ پر چڑھ گئے دیکھا تو بندر بنا دیئے گئے ہیں کھول کر اندر گئے تو بندر اپنے اپنے رشتہ داروں کے قدموں میں لوٹنے لگے اس سے پہلے سورة بقرہ کی ایسی ہی آیت کی تفسیر کے موقعہ پر بالتفصیل ان واقعات کو اچھی طرح بیان کرچکے ہیں وہیں دیکھ لیجئے۔ فالحمد اللہ، دوسرا قول یہ ہے کہ جو چپ رہے تھے وہ بھی ان گنہگاروں کے ساتھ ہلاک ہوئے، ابن عباس سے منقول ہے کہ پہلے ہفتہ کے دن کی تعظیم بطور بدعت خود ان لوگوں نے نکالی اب اللہ کی طرف سے بطور آزمائش کے وہ تعظیم ان پر ضروری قرار دے دی گئی اور حکم ہوگیا کہ اس دن مجھلی کا شکار نہ کرو پھر مچھلیوں کا اس دن نمایاں ہونا اور دنوں میں نہ نکلنا وغیرہ بیان فرما کر فرمایا کہ پھر ان میں سے ایک شخص نے ایک مچھلی ہفتے کے دن پکڑی اس کی ناک میں سوراخ کرکے ڈور باندھ کر ایک کیل کنارے گاڑ کر اس میں ڈور اٹکا کر مچھلی کو دریا میں ڈال دیا دوسرے دن جا کر پانی میں سے نکال لایا اور بھون کر کھالی سوائے اس پاک باز حق گو جماعت کے لوگوں کے کسی نے نہ اسے روکا نہ منع کیا نہ سمجھایا لیکن ان کی نصیحت کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ اس ایک کی دیکھا دیکھی اور بھی یہی کام کرنے لگے یہاں تک کہ بازاروں میں مچھلی آنے لگی اور اعلانیہ یہ کام ہونے لگا۔ ایک اور جماعت کے لوگوں نے اس حق والی جماعت سے کہا کہ تم ان لوگوں کو کیوں وعظ کرتے ہو اللہ تو انہیں ہلاک کرنے والا سخت عذاب کرنے والا ہے تو انہوں نے وہ جواب دیا یعنی اللہ کا فرمان دہرایا۔ لیکن لوگ فرمان ربانی کو بھول بیٹھے اور عذاب رب کے خود شکار ہوگئے۔ یہ تین گروہوں میں بٹ گئے تھے ایک تو شکار کھیلنے والا، ایک منع کرنے والا، ایک ان منع کرنے والوں سے کہنے والا کہ اب نصیحت بیکار ہے۔ بس وہ تو بچ گئے جو برابر روکتے رہے تھے اور دونوں جماعتیں ہلاک کردی گئیں۔ سند اس کی نہایت عمدہ ہے لیکن حضرت ابن عباس کا حضرت عکرمہ کے قول کی طرف رجوع کرنا اس قول کے کہنے سے اولیٰ ہے اس لئے کہ اس قول کے بعد ان پر ان کے حال کی حقیقت کھل گئی واللہ اعلم۔ پھر فرمان ہے کہ ہم نے ظالموں کو سخت عذابوں سے دبوچ لیا۔ مفہوم کی دلالت تو اس بات پر ہے کہ جو باقی رہے بچ گئے۔ (بئیس) کی کئی ایک قرأتیں ہیں اس کے معنی سخت کے، دردناک کے، تکلیف دہ کے ہیں اور سب کا مطلب قریب قریب یکساں ہے۔ ان کی سرکشی اور ان کے حد سے گذر جانے کے باعث ہم نے ان سے کہہ دیا کہ تم ذلیل حقیر اور ناقدرے بندر بن جاؤ چناچہ وہ ایسے ہی ہوگئے۔

Additional Authentic Tafsir Resources

Access comprehensive classical Tafsir works recommended by scholars, available online for free

Tafsir Ibn Kathir

The greatest of tafseers - interprets Quran with Quran, Sunnah, Salaf statements, and Arabic

Complete EnglishMost Authentic

Tafsir As-Sa'di

Excellent tafsir by Shaykh Abdur-Rahman As-Sa'di - simple expressions with tremendous knowledge

Complete 10 VolumesSimple & Clear

Tafsir At-Tabari

Comprehensive and all-inclusive tafsir by Ibn Jarir At-Tabari - earliest major running commentary

Abridged EnglishComprehensive

Tafsir Al-Baghawi

Trustworthy classical tafsir - Ma'alim al-Tanzil by Al-Husayn ibn Mas'ud al-Baghawi

Partial EnglishClassical

Scholarly Recommendation: These four tafseers are highly recommended by scholars. Tafsir Ibn Kathir is considered the greatest for its methodology of interpreting Quran with Quran, then Sunnah, then Salaf statements, and finally Arabic language. Tafsir As-Sa'di is excellent for its clarity and simple expressions. All sources are authentic and freely accessible.

Hadith References

Access authentic hadith references and scholarly commentary linked to this verse from trusted Islamic sources

Opens interactive viewer with embedded content from multiple sources

Quick Links to External Sources:

💡 Tip: Click "View Hadith References" to see embedded content from multiple sources in one place. External links open in new tabs for direct access.

Additional Tafsir Resources (Altafsir.com)

Access 7+ classical tafsir commentaries and historical context from the Royal Aal al-Bayt Institute

Classical Tafsir Commentaries:

Links open in a new tab. Content provided by the Royal Aal al-Bayt Institute for Islamic Thought.