An-Naml 21Juz 19

Ayah Study

Surah An-Naml (سُورَةُ النَّمۡلِ), Verse 21

Ayah 3180 of 6236 • Meccan

لَأُعَذِّبَنَّهُۥ عَذَابًۭا شَدِيدًا أَوْ لَأَا۟ذْبَحَنَّهُۥٓ أَوْ لَيَأْتِيَنِّى بِسُلْطَٰنٍۢ مُّبِينٍۢ

Translations

The Noble Quran

English

"I will surely punish him with a severe torment, or slaughter him, unless he brings me a clear reason."

Muhammad Asad

English

And [one day] he looked in vain for [a particular one of] the birds; and so he said: How is it that I do not see the hoopoe? Or could he be among the absent?

Fatah Muhammad Jalandhari

Urdu

میں اسے سخت سزا دوں گا یا ذبح کر ڈالوں گا یا میرے سامنے (اپنی بےقصوری کی) دلیل صریح پیش کرے

Tafsir (Commentary)

Tafsir al-Sa'di

Salafi Approved
Abdur-Rahman ibn Nasir al-Sa'diArabic

فحينئذ تغيظ عليه وتوعده فقال: لأُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِيدًا دون القتل، أَوْ لأَذْبَحَنَّهُ أَوْ لَيَأْتِيَنِّي بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ أي: حجة واضحة على تخلفه، وهذا من كمال ورعه وإنصافه أنه لم يقسم على مجرد عقوبته بالعذاب أو القتل لأن ذلك لا يكون إلا من ذنب، وغيبته قد تحتمل أنها لعذر واضح فلذلك استثناه لورعه وفطنته.

Tafsir al-Muyassar

Salafi Approved
Committee of Saudi ScholarsArabic

وتفقد سليمان حال الطير المسخرة له وحال ما غاب منها، وكان عنده هدهد متميز معروف فلم يجده، فقال: ما لي لا أرى الهدهد الذي أعهده؟ أسَتَره ساتر عني، أم أنه كان من الغائبين عني، فلم أره لغيبته؟ فلما ظهر أنه غائب قال: لأعذبنَّ هذا الهدهد عذابًا شديدًا لغيابه تأديبًا له، أو لأذبحنَّه عقوبة على ما فعل حيث أخلَّ بما سُخِّر له، أو ليأتينِّي بحجة ظاهرة، فيها عذر لغيبته.

Tafsir Ibn Kathir

Salafi Approved
Hafiz Ibn KathirArabic

"لأعذبنه عذابا شديدا" قال الأعمش عن المنهال بن عمرو عن سعيد عن ابن عباس يعني نتف ريشه وقال عبد الله بن شداد نتف ريشه وتشميسه وكذا قال غير واحد من السلف إنه نتف ريشه وتركه ملقى يأكله الذر والنمل وقوله "أو لأذبحنه" يعني قتله "أو ليأتيني بسلطان مبين" بعذر بين واضح وقال سفيان بن عيينة وعبد الله بن شداد: لما قدم الهدهد قالت له الطير ما خلفك فقد نذر سليمان دمك فقال هل استثنى؟ قالوا نعم قال "لأعذبنه عذابا شديدا أو لأذبحنه أو ليأتيني بسلطان مبين" قال نجوت إذا قال مجاهد إنما دفع الله عنه ببره بأمه.

Tafsir Ibn Kathir

Ismail ibn KathirEnglish

The Absence of the Hoopoe Mujahid, Sa`id bin Jubayr and others narrated from Ibn `Abbas and others that the hoopoe was an expert who used to show Sulayman where water was if he was out in open land and needed water. The hoopoe would look for water for him in the various strata of the earth, just as a man looks at things on the surface of the earth, and he would know just how far below the surface the water was. When the hoopoe showed him where the water was, Sulayman would command the Jinn to dig in that place until they brought water from the depths of the earth. One day Sulayman went to some open land and checked on the birds, but he could not see the hoopoe. فَقَالَ مَالِيَ لاَ أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَآئِبِينَ (and (Sulayman) said: "What is the matter that I see not the hoopoe Or is he among the absentees") One day `Abdullah bin `Abbas told a similar story, and among the people was a man from the Khawarij whose name was Nafi` bin Al-Azraq, who often used to raise objections to Ibn `Abbas. He said to him, "Stop, O Ibn `Abbas; you will be defeated (in argument) today!" Ibn `Abbas said: "Why" Nafi` said: "You are telling us that the hoopoe can see water beneath the ground, but any boy can put seed in a trap and cover the trap with dirt, and the hoopoe will come and take the seed, so the boy can catch him in the trap." Ibn `Abbas said, "If it was not for the fact that this man would go and tell others that he had defeated Ibn `Abbas in argument, I would not even answer." Then he said to Nafi`: "Woe to you! When the decree strikes a person, his eyes become blind and he loses all caution." Nafi` said: "By Allah I will never dispute with you concerning anything in the Qur'an. " لأُعَذِّبَنَّهُ عَذَاباً شَدِيداً (I will surely punish him with a severe torment) Al-A`mash said, narrating from Al-Minhal bin `Amr from Sa`id that Ibn `Abbas said: "He meant, by plucking his feathers." `Abdullah bin Shaddad said: "By plucking his feathers and exposing him to the sun." This was also the view of more than one of the Salaf, that it means plucking his feathers and leaving him exposed to be eaten by ants. أَوْ لاّذْبَحَنَّهُ (or slaughter him,) means, killing him. أَوْ لَيَأْتِيَنِّى بِسُلْطَـنٍ مُّبِينٍ (unless he brings me a clear reason.) i.e., a valid excuse. Sufyan bin `Uyaynah and `Abdullah bin Shaddad said: "When the hoopoe came back, the other birds said to him: "What kept you Sulayman has vowed to shed your blood." The hoopoe said: "Did he make any exception did he say `unless"' They said, "Yes, he said: لأُعَذِّبَنَّهُ عَذَاباً شَدِيداً أَوْ لاّذْبَحَنَّهُ أَوْ لَيَأْتِيَنِّى بِسُلْطَـنٍ مُّبِينٍ (I will surely punish him with a severe torment or slaughter him, unless he brings me a clear reason.) The hoopoe said, "Then I am saved."

Tafsir Ibn Kathir

Salafi Approved
Hafiz Ibn KathirUrdu

ہدہد ہدہد فوج سلیمان میں مہندس کا کام کرتا تھا وہ بتلاتا تھا کہ پانی کہاں ہے ؟ زمین کے اندر کا پانی اس کو اسطرح نظر آتا تھا جیسے کہ زمین کے اوپر کی چیز لوگوں کو نظر آتی ہے۔ جب سلیمان ؑ جنگل میں ہوتے اس سے دریافت فرماتے کہ پانی کہاں ہے ؟ یہ بتادیتا کہ فلاں جگہ ہے۔ اتنا نیچا ہے اتنا اونچا ہے وغیرہ۔ حضرت سلیمان ؑ اسی وقت جنات کو حکم دیتے اور کنواں کھود لیا جاتا پانی کی تلاش کا حکم دیا اتفاق سے وہ موجود نہ تھا۔ اس پر آپ نے فرمایا آج ہدہد نظر نہیں آتا کیا پرندوں میں کہیں وہ چھپ گیا جو مجھے نظر نہ آیا۔ یا واقع میں وہ حاضر نہیں ؟ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس ؓ سے یہ تفسیر سن کر نافع بن ارزق خارجی نے اعتراض کیا تھا یہ بکواسی ہر وقت حضرت عبداللہ کی باتوں پر بےجا اعتراض کیا کرتا تھا کہنے لگا آج تو تم ہارگئے۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا کیوں ؟ اس نے کہا آپ جو یہ فرماتے ہو کہ ہدہد زمین کے تلے کا پانی دیکھ لیتا تھا یہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے ایک بچہ جال بچھاکر اسے مٹی سے ڈھک کر دانہ ڈال کر ہدہد کا شکار کرلیتا ہے اگر وہ زمین کے اندر کا پانی دیکھتا ہے تو زمین کے اوپر کا جال اسے کیوں نظر نہیں آتا ؟ آپ نے فرمایا اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ تو یہ سمجھ جائے گا کہ ابن عباس ؓ لاجواب ہوگیا تو مجھے جواب کی ضرورت نہ تھی سن جس وقت قضا آجاتی ہے آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں اور عقل جاتی رہتی ہے۔ نافع لاجواب ہوگیا اور کہا واللہ اب میں آپ پر اعتراض نہ کرونگا۔ حضرت عبداللہ برزی ایک ولی کامل شخص تھے پیر جمعرات کا روزہ پابندی سے رکھا کرتے تھے۔ اسی سال کی عمر تھی ایک آنکھ سے کانے تھے۔ سلیمان بن زید نے ان سے آنکھ کے جانے کا سبب دریافت کیا تو آپ نے اس کے بتانے سے انکار کردیا۔ یہ بھی پیچھے پڑگئے مہینوں گذر گئے نہ وہ بتاتے نہ یہ سوال چھوڑتے آخر تنگ آکر فرمایا لو سن لو میرے پاس لولو خراسانی برزہ میں (جو دمشق کے پاس ایک شہر ہے) آئے اور مجھ سے کہا کہ میں انہیں برزہ کی وادی میں لے جاؤں میں انہیں وہاں لے گیا۔ انہوں نے انگیٹھیاں نکالیں بخور نکالے اور جلانے شروع کئے یہاں تک کہ تمام وادی خوشبو سے مہکنے لگی۔ اور ہر طرف سے سانپوں کی آمد شروع ہوگئی۔ لیکن بےپرواہی سے بیٹھے رہے کسی سانپ کی طرف التفات نہ کرتے تھے۔ تھوڑی دیر میں ایک سانپ آیا جو ہاتھ بھر کا تھا اور اسکی آنکھیں سونے کی طرح چمک رہی تھیں۔ یہ بہت ہی خوش ہوئے اور کہنے لگے اللہ کا شکر ہے ہماری سال بھر محنت ٹھکانے لگی۔ انہوں نے اس سانپ کو لے کر اس کی آنکھوں میں سلائی پھیر کر اپنی آنکھوں میں وہ سلائی پھیرلی میں نے ان سے کہا کہ میری آنکھوں میں بھی یہ سلائی پھیردو۔ انہوں نے انکار کردیا میں نے ان سے منت سماجت کی بہ مشکل وہ راضی ہوئے اور میری داہنی آنکھ میں وہ سلائی پھیر دی اب جو میں دیکھتا ہوں تو زمین مجھے ایک شیشے کی طرح معلوم ہونے لگی جیسی اوپر کی چیزیں نظر آتی تھیں ایسی ہی زمین کے اندر کی چیزیں بھی دیکھ رہا تھا انہوں نے مجھے کہا چل اب آپ ہمارے ساتھ ہی کچھ دورچلے میں نے منظور کرلیا وہ باتیں کرتے ہوئے مجھے ساتھ لئے ہوئے چلے جب میں بستی سے بہت دور نکل گیا تو دونوں نے مجھے دونوں طرف سے پکڑلیا اور ایک نے اپنی انگلی ڈال کر میری آنکھ نکالی اور اسے پھینک دیا۔ اور مجھیے یونہی بندھا ہوا وہیں پٹخ کر دونوں کہیں چل دئیے۔ اتفاقا وہاں سے ایک قافلہ گذرا اور انہوں نے مجھے اس حالت میں دیکھ کر رحم کھایا قیدوبند سے مجھے آزاد کردیا اور میں چلا آیا یہ قصہ ہے میری آنکھ کے جانے کا (ابن عساکر) حضرت سلیمان کے اس ہدہد کا نام عنبر تھا، آپ فرماتے ہیں اگر فی الواقع وہ غیر حاضر ہے تو میں اسے سخت سزادوں گا اسکے پر نچوادوں گا اور اس کو پھنک دوں گا کہ کیڑے مکوڑے کھاجائیں یا میں اسے حلال کردونگا۔ یا یہ کہ وہ اپنے غیر حاضر ہونے کی کوئی معقول وجہ پیش کردے۔ اتنے میں ہدہد آگیا جانوروں نے اسے خبردی کہ آج تیری خیر نہیں۔ بادشاہ سلامت عہد کرچکے ہیں کہ وہ تجھے مار ڈالیں گے۔ اس نے کہا یہ بیان کرو کہ آپ کے الفاظ کیا تھے ؟ انہوں نے بیان کئے تو خوش ہو کر کہنے لگا پھر تو میں بچ جاؤں گا۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں اس کے بچاؤ کی وجہ اس کا اپنی ماں کے ساتھ سلوک تھا۔

Additional Authentic Tafsir Resources

Access comprehensive classical Tafsir works recommended by scholars, available online for free

Tafsir Ibn Kathir

The greatest of tafseers - interprets Quran with Quran, Sunnah, Salaf statements, and Arabic

Complete EnglishMost Authentic

Tafsir As-Sa'di

Excellent tafsir by Shaykh Abdur-Rahman As-Sa'di - simple expressions with tremendous knowledge

Complete 10 VolumesSimple & Clear

Tafsir At-Tabari

Comprehensive and all-inclusive tafsir by Ibn Jarir At-Tabari - earliest major running commentary

Abridged EnglishComprehensive

Tafsir Al-Baghawi

Trustworthy classical tafsir - Ma'alim al-Tanzil by Al-Husayn ibn Mas'ud al-Baghawi

Partial EnglishClassical

Scholarly Recommendation: These four tafseers are highly recommended by scholars. Tafsir Ibn Kathir is considered the greatest for its methodology of interpreting Quran with Quran, then Sunnah, then Salaf statements, and finally Arabic language. Tafsir As-Sa'di is excellent for its clarity and simple expressions. All sources are authentic and freely accessible.

Hadith References

Access authentic hadith references and scholarly commentary linked to this verse from trusted Islamic sources

Opens interactive viewer with embedded content from multiple sources

Quick Links to External Sources:

💡 Tip: Click "View Hadith References" to see embedded content from multiple sources in one place. External links open in new tabs for direct access.

Additional Tafsir Resources (Altafsir.com)

Access 7+ classical tafsir commentaries and historical context from the Royal Aal al-Bayt Institute

Classical Tafsir Commentaries:

Links open in a new tab. Content provided by the Royal Aal al-Bayt Institute for Islamic Thought.