Ayah Study
Surah Maryam (سُورَةُ مَرۡيَمَ), Verse 60
Ayah 2310 of 6236 • Meccan
إِلَّا مَن تَابَ وَءَامَنَ وَعَمِلَ صَٰلِحًۭا فَأُو۟لَٰٓئِكَ يَدْخُلُونَ ٱلْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ شَيْـًۭٔا
Translations
The Noble Quran
EnglishExcept those who repent and believe (in the Oneness of Allâh and His Messenger Muhammad صلى الله عليه وسلم), and work righteousness.<sup foot_note=154707>1</sup> Such will enter Paradise and they will not be wronged in aught.
Muhammad Asad
Englishthis is the paradise which We grant as heritage unto such of Our servants as are conscious of Us.
Fatah Muhammad Jalandhari
Urduہاں جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور عمل نیک کئے تو اسے لوگ بہشت میں داخل ہوں گے اور ان کا ذرا نقصان نہ کیا جائے گا
Tafsir (Commentary)
Tafsir al-Sa'di
Salafi Approvedثم استثنى تعالى فقال: { إِلَّا مَنْ تَابَ } عن الشرك والبدع والمعاصي، فأقلع عنها وندم عليها، وعزم عزما جازما أن لا يعاودها، { وَآمَنَ } بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر، { وَعَمِلَ صَالِحًا } وهو العمل الذي شرعه الله على ألسنة رسله، إذا قصد به وجهه، { فَأُولَئِكَ } الذي جمعوا بين التوبة والإيمان، والعمل الصالح، { يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ } المشتملة على النعيم المقيم، والعيش السليم، وجوار الرب الكريم، { وَلَا يُظْلَمُونَ شَيْئًا } من أعمالهم، بل يجدونها كاملة، موفرة أجورها، مضاعفا عددها.
Tafsir al-Muyassar
Salafi Approvedلكن مَن تاب منهم مِن ذنبه وآمن بربه وعمل صالحًا تصديقًا لتوبته، فأولئك يقبل الله توبتهم، ويدخلون الجنة مع المؤمنين ولا يُنقَصون شيئًا من أعمالهم الصالحة.
Tafsir Ibn Kathir
Salafi Approvedوقوله "إلا من تاب وآمن وعمل صالحا" أي إلا من رجع عن ترك الصلوات واتباع الشهوات فإن الله يقبل توبته ويحسن عاقبته ويجعله من ورثة جنة النعيم ولهذا قال "فأولئك يدخلون الجنة ولا يظلمون شيئا" وذلك لأن التوبة تجب ما قبلها وفي الحديث الآخر " التائب من الذنب كمن لا ذنب له " ولهذا لا ينقص هؤلاء التائبون من أعمالهم التي عملوها شيئا ولا قوبلوا بما عملوه قبلها فينقص لهم مما عملوه بعدها لأن ذلك ذهب هدرا وترك نسيا وذهب مجانا من كرم الكريم وحلم الحليم وهذا الاستثناء ههنا كقوله في سورة الفرقان "والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق - إلى قوله - وكان الله غفورا رحيما".
Tafsir Ibn Kathir
They were succeeded by Wicked People and Good People After Allah mentioned the party of blessed ones -- the Prophets and those who followed them by maintainig the limits set by Allah and His commandments, fulfilling what Allah ordered and avoiding His prohibitions -- then He mentions, (خَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ) (there has succeeded them a posterity.) This means later generations. أَضَاعُواْ الصَّلَـوةَ (who have lost Salah) Losing their prayers is when they do not consider the prayers obligatory. Therefore they lose, because the prayer is the pillar and foundation of the religion. It is the best of the servants' deeds. Thus, these people will occupy themselves with worldly desires and delights, and they will be pleased with the life of this world. They will be tranquil and at ease in the worldly appetites. Therefore, these people will meet with Ghaiy, which means loss on the Day of Resurrection. Al-Awza`i reported from Musa bin Sulayman, who reported from Al-Qasim bin Mukhaymirah that he said concerning Allah's statement, فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُواْ الصَّلَـوةَ (Then, there has succeeded them a posterity who have lost the Salah) "This means that they will not keep up with the proper times of the prayer, because if it meant complete abandonment of the prayer, this would be disbelief." It is also reported that it was said to Ibn Mas`ud, "Allah often mentions the prayer in the Qur'an. He says, الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَـتِهِمْ سَاهُونَ (Those who neglect their Salah.) 107:5 And He says, عَلَى صَلاَتِهِمْ دَآئِمُونَ (Those who remain constant in their Salah.) 70:23 And He says, عَلَى صَلاَتِهِمْ يُحَافِظُونَ (Who guard their Salah.)" 23:9 Then, Ibn Mas`ud said, "This means at its designated times." The people said, "We thought that this was referring to the abandonment of the prayer." He replied, "That would be disbelief." Masruq said, "No one who guards the five daily prayers will be written among the heedless. In their neglect is destruction. Their neglect is delaying them past their fixed times." Al-Awza`i reported from Ibrahim bin Zayd that Umar bin `Abdul-`Aziz recited the Ayah, فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُواْ الصَّلَـوةَ وَاتَّبَعُواْ الشَّهَوَتِ فَسَوْفَ يَلْقُونَ غَيّاً (Then, there has succeeded them a posterity who have lost the Salah and have followed lusts. So they will meet Ghayy.) Then, he said, "Their loss was not their abandonment of the prayers, but it was by not offering them during their proper and prescribed times." Allah said, فَسَوْفَ يَلْقُونَ غَيّاً (So they will meet Ghayy. ) `Ali bin Abi Talhah reported from Ibn `Abbas that he said, فَسَوْفَ يَلْقُونَ غَيّاً (So they will meet Ghayy.) "This means loss." Qatadah said, "This means evil." Sufyan Ath-Thawri, Shu`bah and Muhammad bin Ishaq all reported from Abu Ishaq As-Sabi`i, who reported from Abu `Ubaydah, who reported from `Abdullah bin Mas`ud that he said, فَسَوْفَ يَلْقُونَ غَيّاً (So they will meet Ghayy.) "This is a valley in the Hellfire which is very deep and its food is filthy." Al-A`mash reported from Ziyad, who reported from Abu `Iyad, who commented Allah's statement, فَسَوْفَ يَلْقُونَ غَيّاً (So they will meet Ghayy.) He said, "This is a valley in Hell made of puss and blood." Allah said, إِلاَّ مَن تَابَ وَءَامَنَ وَعَمِلَ صَـلِحاً (Except those who repent and believe and work righteousness.) This means, "Except those who recant from giving up the prayers and following the desires, for verily, Allah will accept their repentance, give them a good end and make them of those who inherit the Garden of Delight (Paradise). " For this reason Allah says, فَأُوْلَـئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلاَ يُظْلَمُونَ شَيْئاً (Such will enter Paradise and they will not be wronged in aught.) This is because repentance wipes away that which was before it. In another Hadith, the Prophet said, «التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَاذَنْبَ لَه» (The one who repents from sin is like he who has no sin.) Because of this, those who repent will not lose anything from the (good) deeds that they did. They will not be held accountable for what they did before their repentance, thus causing a decrease in their reward for deeds that they do after their repentance. That is because whatever they did before repenting is lost, forgotten and not taken to account. This is an honor from the Most Generous and a kindness from the Most Gentle. This is an exception that is made for these people, similar to Allah's statement in Surah Al-Furqan, وَالَّذِينَ لاَ يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَـهَا ءَاخَرَ وَلاَ يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِى حَرَّمَ اللَّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ (And those who invoke not any other god along with Allah, nor kill such person as Allah has forbidden, except for just cause...) until Allah's statement, وَكَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَّحِيماً (and Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful.) 25:68-70
Tafsir Ibn Kathir
Salafi Approvedحدود الہٰی کے محافظ۔نیک لوگوں کا خصوصا انبیاء کرام (علیہم السلام) کا ذکر کیا جو حدود الہٰی کے محافظ، نیک اعمال کے نمونے بدیوں سے بچتے ہیں۔ اب برے لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ ان کے بعد کے زمانے والے ایسے ہوئے کہ وہ نمازوں تک سے بےپرواہ بن گئے اور جب نماز جیسے فریضے کی اہمیت کو بھلا بیٹھے تو ظاہر ہے کہ اور واہیات کی وہ کیا پرواہ کریں گے ؟ کیونکہ نماز تو دین کی بنیاد ہے اور تمام اعمال سے افضل وبہتر ہے۔ یہ لوگ نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑگئے دنیا کی زندگی پر اطمینان سے ریجھ کئے انہیں قیامت کے دن سخت خسارہ ہوگا بڑے گھاٹے میں رہیں گے۔ نماز کے ضائع کرنے سے مراد یا تو اسے بالکل ہی چھوڑنا بیٹھنا ہے۔ اسی لئے امام احمد ؒ اور بہت سے سلف خلف کا مذہب ہے کہ نماز کا تارک کافر ہے۔ یہی ایک قول حضرت امام شافعی ؒ کا بھی ہے کیونکہ حدیث میں ہے کہ بندے اور شرک کے درمیان نماز کا چھوڑنا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ ہم میں اور ان میں فرق نماز کا ہے جس نے نماز چھوڑ دی وہ کافر ہوگیا۔ اس مسئلہ کو تقصیل سے بیان کرنے کا یہ مقام نہیں۔ یا نماز کے ترک سے مراد نماز کے وقتوں کی صحیح طور پر پابندی کا نہ کرنا ہے کیونکہ ترک نماز تو کفر ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے دریافت کیا گیا کہ قرآن کریم میں نماز کا ذکر بہت زیادہ ہے، کہیں نمازوں میں سستی کرنے والوں کے عذاب کا بیان ہے، کہیں نماز کی مداوت کا فرمان ہے، کہیں محافظت کا۔ آپ نے فرمایا ان سے مراد وقتوں میں سستی نہ کرنا اور وقتوں کی پابندی کرنا ہے۔ لوگوں نے کہا ہم تو سمجھتے تھے کہ اس سے مراد نمازوں کا چھوڑ دینا اور نہ چھوڑنا ہے۔ آپ نے فرمایا یہ تو کفر ہے۔ حضرت مسروق ؒ فرماتے ہیں پانچوں نمازوں کی حفاظت کرنے والا غافلوں میں نہیں لکھا جاتا، ان کا ضائع کرنا اپنے آپ کو ہلاک کرنا ہے اور ان کا ضائع کرنا ان کے وقتوں کی پابندی نہ کرنا ہے۔ خلیفۃ المسلمین امیرالمومنین حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا کہ اس سے مراد سرے سے نماز چھوڑ دینا نہیں بلکہ نماز کے وقت کو ضائع کردینا ہے۔ حضرت مجاہد ؒ فرماتے ہیں یہ بدترین لوگ قریب بہ قیامت آئیں گے جب کہ اس امت کے صالح لوگ باقی نہ رہے ہوں گے اس وقت یہ لوگ جانوروں کی طرح کودتے پھاندتے پھریں گے۔ عطابن ابو رباح ؒ یہی فرماتے ہیں کہ یہ لوگ آخری زمانے میں ہوں گے۔ حضرت مجاہد ؒ فرماتے ہیں یہ اس امت کے لوگ ہوں گے جو چوپایوں اور گدھوں کی مانند راستوں میں اچھل کود کریں گے اور اللہ تعالیٰ سے جو آسمان میں ہے بالکل نہ ڈریں گے اور نہ لوگوں سے شرمائیں گے ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے حضور ﷺ نے فرمایا یہ ناخلف لوگ ساٹھ سال کے بعد ہوں گے جو نمازوں کو ضائع کردیں گے اور شہوت رانیوں میں لگ جائیں گے اور قیامت کے دن خمیازہ بھگتیں گے۔ پھر ان کے بعد وہ نالائق لوگ آئیں گے جو قرآن کی تلاوت تو کریں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا۔ یاد رکھو قاری تین قسم کے ہوتے ہیں مومن منافق اور فاجر۔ راوی حدیث حضرت ولید سے جب ان کے شاگرد نے اس کی تفصیل پوچھی تو آپ نے فرمایا ایماندار تو اس کی تصدیق کریں گے۔ نفاق والے اس پر عقیدہ نہ رکھیں گے اور فاجر اس سے اپنی شکم پری کرے گا۔ ابن ابی حاتم کی ایک غریب حدیث میں ہے کہ حضرت مائی عائشہ ؓ اصحاب صفہ کے لیے جب کچھ خیرات بھجواتیں تو کہہ دیتیں کہ بربری مرد و عورت کو نہ دینا کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ یہی وہ ناخلف ہیں جن کا ذکر اس آیت میں ہے۔ محمد بن کعب قرظی کا فرمان ہے کہ مراد اس سے مغرب کے بادشاہ ہیں جو بدترین بادشاہ ہیں۔ حضرت کعب بن احبار ؒ فرماتے ہیں اللہ کی قسم میں منافقوں کے وصف قرآن کریم میں پاتا ہوں۔ یہ نشے پینے والے، نمازیں چھوڑنے والے، شطرنج چوسر وغیرہ کھیلنے والے، عشا کی نمازوں کے وقت سو جانے والے، کھانے پینے میں مبالغہ اور تکلف کرکے پیٹو بن کر کھانے والے، جماعتوں کو چھوڑنے والے۔ حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں مسجدیں ان لوگوں سے خالی نظر آتی ہیں اور بیٹھکیں بارونق بنی ہوئی ہیں۔ ابو شہب عطا رومی ؒ فرماتے ہیں حضرت داؤد ؑ پر وحی آئی کہ اپنے ساتھیوں کو ہوشیار کر دے کہ وہ اپنی نفسانی خواہشوں سے باز رہیں جن کے دل خواہشوں کے پھیر میں رہتے ہیں، میں ان کی عقلوں پر پردہ ڈال دیتا ہوں جب کوئی بندہ شہوت میں اندھا ہوجاتا ہے تو سب سے ہلکی سزا میں اسے یہ دیتا ہوں کہ اپنی اطاعت سے اسے محروم کردیتا ہوں۔ مسند احمد میں ہے مجھے اپنی امت میں دو چیزوں کا بہت ہی خوف ہے ایک تو یہ کہ لوگ جھوٹ کے اور بناؤ کے اور شہوت کے پیچھے پڑجائیں گے اور نمازوں کو چھوڑ بیٹھیں گے، دوسرے یہ کہ منافق لوگ دنیا دکھاوے کو قرآن کے عامل بن کر سچے مومنوں سے لڑیں جھگڑیں گے۔ غیا کے معنی خسران اور نقصان اور برائی کے ہیں۔ ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ غی جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جو بہت گہری ہے اور نہایت سخت عذابوں والی۔ اس میں خون پیپ بھرا ہوا ہے۔ ابن جریر میں ہے لقمان بن عامر فرماتے ہیں میں حضرت ابو امامہ صدی بن عجلان باہلی ؓ کے پاس گیا اور ان سے التماس کی کہ رسول اللہ ﷺ سے سنی ہوئی حدیث مجھے سنائیں۔ آپ نے فرمایا حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر دس اوقیہ کے وزن کا کوئی پتھر جہنم کے کنارے سے جہنم میں پھنکا جائے تو وہ پچاس سال تک تو جہنم کی تہ میں نہیں پہنچ سکتا۔ پھر وہ غی اور اثام میں پہنچے گا۔ غی اور اثام جہنم کے نیچے کے دو کنویں ہیں جہاں دوزخیوں کا لہو پیپ جمع ہوتا ہے۔ غی کا ذکر آیت (فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا 59ۙ) 19۔ مریم :59) میں ہے اور اثام کا ذکر آیت (وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا 68ۙ) 25۔ الفرقان :68) میں ہے اس حدیث کو فرمان رسول سے روایت کرنا منکر ہے اور یہ حدیث کی رو سے بھی غریب ہے۔ پھر فرماتا ہے ہاں جو ان کاموں سے توبہ کرلے یعنی نمازوں کی سستی اور خواہش نفسانی کی پیروی چھوڑ دے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول فرمالے گیا اس کی عاقبت سنوار دے گا اسے جہنم سے بچا کر جنت میں پہنچائے گا، توبہ اپنے سے پہلے کے تمام گناہوں کو معاف کرا دیتی ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے بےگناہ۔ یہ لوگ جو نیکیاں کریں ان کے اجر انہیں ملیں گے کسی ایک نیکی کا ثواب کم نہ ہوگا۔ توبہ سے پہلے کے گناہوں پر کوئی پکڑ نہ ہوگی۔ یہ ہے کرم اس کریم کا اور یہ ہے حلم اس حلیم کا کہ توبہ کے بعد اس گناہ کو بالکل مٹا دیتا ہے ناپید کردیتا ہے۔ سورة فرقان میں گناہوں کا ذکر فرما کر ان کی سزاؤں کا بیان کر کے پھر استثنا کیا اور فرمایا کہ اللہ غفور ورحیم ہے۔
Additional Authentic Tafsir Resources
Access comprehensive classical Tafsir works recommended by scholars, available online for free
Tafsir Ibn Kathir
The greatest of tafseers - interprets Quran with Quran, Sunnah, Salaf statements, and Arabic
Tafsir As-Sa'di
Excellent tafsir by Shaykh Abdur-Rahman As-Sa'di - simple expressions with tremendous knowledge
Tafsir At-Tabari
Comprehensive and all-inclusive tafsir by Ibn Jarir At-Tabari - earliest major running commentary
Tafsir Al-Baghawi
Trustworthy classical tafsir - Ma'alim al-Tanzil by Al-Husayn ibn Mas'ud al-Baghawi
Scholarly Recommendation: These four tafseers are highly recommended by scholars. Tafsir Ibn Kathir is considered the greatest for its methodology of interpreting Quran with Quran, then Sunnah, then Salaf statements, and finally Arabic language. Tafsir As-Sa'di is excellent for its clarity and simple expressions. All sources are authentic and freely accessible.
Hadith References
Access authentic hadith references and scholarly commentary linked to this verse from trusted Islamic sources
Opens interactive viewer with embedded content from multiple sources
💡 Tip: Click "View Hadith References" to see embedded content from multiple sources in one place. External links open in new tabs for direct access.
Additional Tafsir Resources (Altafsir.com)
Access 7+ classical tafsir commentaries and historical context from the Royal Aal al-Bayt Institute
Links open in a new tab. Content provided by the Royal Aal al-Bayt Institute for Islamic Thought.