Ayah Study
Surah Yusuf (سُورَةُ يُوسُفَ), Verse 20
Ayah 1616 of 6236 • Meccan
وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍۭ بَخْسٍۢ دَرَٰهِمَ مَعْدُودَةٍۢ وَكَانُوا۟ فِيهِ مِنَ ٱلزَّٰهِدِينَ
Translations
The Noble Quran
EnglishAnd they sold him for a low price - for a few Dirhams (i.e. for a few silver coins). And they were of those who regarded him insignificant.
Muhammad Asad
EnglishAnd when he reached full manhood, We bestowed upon him the ability to judge [between right and wrong], as well as [innate] knowledge: for thus do We reward the doers of good.
Fatah Muhammad Jalandhari
Urduاور اس کو تھوڑی سی قیمت (یعنی) معدودے چند درہموں پر بیچ ڈالا۔ اور انہیں ان (کے بارے) میں کچھ لالچ نہ تھا
Tafsir (Commentary)
Tafsir Ibn Kathir
Salafi Approvedيقول تعالى: وباعه إخوته بثمن قليل. قال مجاهد وعكرمة: والبخس هو النقص كما قال تعالى " فلا يخاف بخسا ولا رهقا" أي اعتاض عنه إخوته بثمن دون قليل ومع ذلك كانوا فيه من الزاهدين أي ليس لهم رغبة فيه بل لو سئلوه بلا شئ لأجابوا. قال ابن عباس ومجاهد والضحاك إن الضمير في قوله " وشروه " عائد على إخوة يوسف ; وقال قتادة: بل هو عائد على السيارة والأول أقوى لأن قوله " وكانوا فيه من الزاهدين " إنما أراد إخوته لا أولئك السيارة لأن السيارة استبشروا به وأسروه بضاعة ولو كانوا فيه زاهدين لما اشتروه فترجح من هذا أن الضمير في " شروه " إنما هو لإخوته.وقيل المراد بقوله " بخس " الحرام وقيل الظلم وهذا وإن كان كذلك لكن ليس هو المراد هنا لأن هذا معلوم يعرفه كل أحد أن ثمنه حرام على كل حال وعلى كل أحد لأنه نبي ابن نبي ابن نبي ابن خليل الرحمن فهو الكريم ابن الكريم ابن الكريم ابن الكريم لإنما المراد هنا بالبخس الناقص أو الزيوف أو كلاهما أي إنهم إخوته وقد باعوه ومع هذا بأنقص الأثمان ولهذا قال " دراهم معدودة " فعن ابن مسعود رضي الله عنه باعوه بعشرين درهما وكذا قال ابن عباس ونوف البكالي والسدي وقتادة وعطية العوفي وزاد اقتسموها درهمين درهمين وقال مجاهد: اثنان وعشرون درهما وقال محمد بن إسحاق وعكرمة أربعون درهما وقال الضحاك في قوله " وكانوا فيه من الزاهدين " وذلك أنهم لم يعلموا نبوته منزلته عند الله عز وجل وقال مجاهد لما باعوه جعلوا يتبعونهم ويقولون لهم استوثقوا منه لا يأبق حتى وقفوه بمصر فقال: من يبتاعني وليبشر ؟ فاشتراه الملك وكان مسلما.
Tafsir al-Sa'di
Salafi Approvedتفسير الآيتين 19 و20 :ـ أي: مكث يوسف في الجب ما مكث، حتى { جَاءَتْ سَيَّارَةٌ } أي: قافلة تريد مصر، { فَأَرْسَلُوا وَارِدَهُمْ } أي: فرطهم ومقدمهم، الذي يعس لهم المياه، ويسبرها ويستعد لهم بتهيئة الحياض ونحو ذلك، { فَأَدْلَى } ذلك الوارد { دَلْوَهُ } فتعلق فيه يوسف عليه السلام وخرج. { قَالَ يَا بُشْرَى هَذَا غُلَامٌ } أي: استبشر وقال: هذا غلام نفيس، { وَأَسَرُّوهُ بِضَاعَةً } وكان إخوته قريبا منه، فاشتراه السيارة منهم، { بِثَمَنٍ بَخْسٍ } أي: قليل جدا، فسره بقوله: { دَرَاهِمَ مَعْدُودَةٍ وَكَانُوا فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ } لأنه لم يكن لهم قصد إلا تغييبه وإبعاده عن أبيه، ولم يكن لهم قصد في أخذ ثمنه، والمعنى في هذا: أن السيارة لما وجدوه، عزموا أن يُسِرُّوا أمره، ويجعلوه من جملة بضائعهم التي معهم، حتى جاءهم إخوته فزعموا أنه عبد أبق منهم، فاشتروه منهم بذلك الثمن، واستوثقوا منهم فيه لئلا يهرب، والله أعلم.
Tafsir al-Muyassar
Salafi Approvedوباعه إخوته للواردين من المسافرين بثمن قليل من الدراهم، وكانوا زاهدين فيه راغبين في التخلص منه؛ وذلك أنهم لا يعلمون منزلته عند الله.
Tafsir Ibn Kathir
Yusuf is Rescued from the Well and sold as a Slave Allah narrates what happened to Yusuf, peace be upon him, after his brothers threw him down the well and left him in it, alone, where he remained for three days, according to Abu Bakr bin `Ayyash. Muhammad bin Ishaq said, "After Yusuf's brothers threw him down the well, they remained around the well for the rest of the day to see what he might do and what would happen to him. Allah sent a caravan of travelers that camped near that well, and they sent to it the man responsible for drawing water for them. When he approached the well, he lowered his bucket down into it, Yusuf held on to it and the man rescued him and felt happy, يبُشْرَى هَـذَا غُلاَمٌ ("What good news! Here is a boy.") Al-`Awfi reported that Ibn `Abbas commented, "Allah's statement, وَأَسَرُّوهُ بِضَـعَةً (So they hid him as merchandise), is in reference to Yusuf's brothers, who hid the news that he was their brother. Yusuf hid this news for fear that his brothers might kill him and preferred to be sold instead. Consequently, Yusuf's brothers told the water drawer about him and that man said to his companions, يبُشْرَى هَـذَا غُلاَمٌ ("What good news! Here is a boy."), a slave whom we can sell. Therefore, Yusuf's own brothers sold him." Allah's statement, وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَعْمَلُونَ (And Allah was the All-Knower of what they did. ) states that Allah knew what Yusuf's brothers, and those who bought him, did. He was able to stop them and prevent them from committing their actions, but out of His perfect wisdom He decreed otherwise. He let them do what they did, so that His decision prevails and His appointed destiny rules, أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالاٌّمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَـلَمِينَ (Surely, His is the creation and commandment. Blessed is Allah, the Lord of the all that exists!) 7:54 This reminds Allah's Messenger Muhammad ﷺ, that Allah has perfect knowledge in the persecution that his people committed against him and that He is able to stop them. However, He decided to give them respite, then give Muhammad ﷺ the victory and make him prevail over them, just as He gave Yusuf victory and made him prevail over his brothers. Allah said next, وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَهِمَ مَعْدُودَةٍ (And they sold him for a Bakhs price, - for a few Dirhams) in reference to Yusuf's brothers selling him for a little price, according to Mujahid and `Ikrimah. `Bakhs' means decreased, just as Allah the Exalted said in another Ayah, فَلاَ يَخَافُ بَخْساً وَلاَ رَهَقاً (shall have no fear, either of a Bakhs (a decrease in the reward of his good deeds) or a Rahaq (an increase in the punishment for his sins).) 72:13 meaning that Yusuf's brothers exchanged him for a miserably low price. Yet, he was so insignificant to them that had the caravan people wanted him for free, they would have given him for free to them! Ibn `Abbas, Mujahid and Ad-Dahhak said that, وَشَرَوْهُ (And they sold him), is in reference to Yusuf's brothers. They sold Yusuf for the lowest price, as indicated by Allah's statement next, دَرَهِمَ مَعْدُودَةٍ (for a few Dirhams), twenty Dirhams, according to `Abdullah bin Mas`ud. Similar was said by Ibn `Abbas, Nawf Al-Bikali, As-Suddi, Qatadah and `Atiyah Al-`Awfi, who added that they divided the Dirhams among themselves, each getting two Dirhams. Ad-Dahhak commented on Allah's statement, وَكَانُواْ فِيهِ مِنَ الزَهِدِينَ (And they were of those who regarded him insignificant.) "Because they had no knowledge of his prophethood and glorious rank with Allah, the Exalted and Most Honored."
Tafsir Ibn Kathir
Salafi Approvedکنویں سے بازار مصر تک بھائی تو حضرت یوسف کو کنویں میں ڈال کر چل دیئے۔ یہاں تین دن آپ کو اسی اندھیرے کنویں میں اکیلے گذر گئے۔ محمد بن اسحاق کا بیان ہے کہ اس کنویں میں گرا کر بھائی تماشا دیکھنے کے لیے اس کے آس پاس ہی دن بھر پھرتے رہے کہ دیکھیں وہ کیا کرتا ہے اور اس کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے ؟ قدرت اللہ کی کہ ایک قافلہ وہیں سے گزرا۔ انہوں نے اپنے سقے کو پانی کے لے بھیجا۔ اس نے اسی کونے میں ڈول ڈالا، حضرت یوسف ؑ نے اس کی رسی کو مضبوط تھام لیا اور بجائے پانی کے آپ باہر نکلے۔ وہ آپ کو دیکھ کر باغ باغ ہو گیارہ نہ سکا با آواز بلند کہہ اٹھا کہ لو سبحان اللہ یہ تو نوجوان بچہ آگیا۔ دوسری قرأت اس کی یا بشرای بھی ہے۔ سدی کہتے ہیں بشریٰ سقے کے بھیجنے والے کا نام بھی تھا اس نے اس کا نام لے کر پکار کر خبر دی کہ میرے ڈول میں تو ایک بچہ آیا ہے۔ لیکن سدی کا یہ قول غریب ہے۔ اس طرح کی قرآت پر بھی وہی معنی ہوسکتے ہیں اس کی اضافت اپنے نفس کی طرف ہے اور یائے اضافت ساقط ہے۔ اسی کی تائید قرآت یا بشرای سے ہوتی ہے جیسے عرب کہتے یا نفس اصبری اور یا غلام اقبل اضافت کے حرف کو ساقط کر کے۔ اس وقت کسرہ دینا بھی جائز ہے اور رفع دینا بھی۔ پس وہ اسی قبیل سے ہے اور دوسری قرآت اس کی تفسیر ہے۔ واللہ اعلم۔ ان لوگوں نے آپ کو بحیثیت پونجی کے چھپالیا قافلے کے اور لوگوں پر اس راز کا ظاہر نہ کیا بلکہ کہہ دیا کہ ہم نے کنویں کے پاس کے لوگوں سے اسے خریدا ہے، انہوں نے ہمیں اسے دے دیا ہے تاکہ وہ بھی اپنا حصہ نہ ملائیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ برادران یوسف نے شناخت چھپائی اور حضرت یوسف نے بھی اپنے آپ کو ظاہر نہ کیا کہ ایسا نہ ہو یہ لوگ کہیں مجھے قتل ہی نہ کردیں۔ اس لیے چپ چاپ بھائیوں کے ہاتھوں آپ بک گئے۔ سقے سے انہوں نے کہا اس نے آواز دے کر بلا لیا انہوں نے اونے پونے یوسف ؑ کو ان کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ اللہ کچھ ان کی اس حرکت سے بیخبر نہ تھا وہ خوب دیکھ بھال رہا تھا وہ قادر تھا کہ اس وقت اس بھید کو ظاہر کر دے لیکن اس کی حکمتیں اسی کے ساتھ ہیں اس کی تقدیر یونہی یعنی جاری ہوئی تھی۔ خلق و امرا اسی کا ہے وہ رب العالمین برکتوں والا ہے اس میں آنحضرت ﷺ کو بھی ایک طرح تسکین دی گئی ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ قوم آپ کو دکھ دے رہی ہے میں قادر ہوں کہ آپ کو ان سے چھڑا دوں انہیں غارت کردوں لیکن میرے کام حکمت کے ساتھ ہیں دیر ہے اندھیر نہیں بےفکر رہو، عنقریب غالب کروں گا اور رفتہ رفتہ ان کو پست کردوں گا۔ جیسے کہ یوسف اور ان کے بھائیوں کے درمیان میری حکمت کا ہاتھ کام کرتا رہا۔ یہاں تک کا آخر انجام حضرت یوسف کے سامنے انہیں جھکنا پڑا اور ان کے مرتبے کا اقرار کرنا پڑا۔ بہت تھوڑے مول پر بھائیوں نے انہیں بیچ دیا۔ ناقص چیز کے بدلے بھائی جیسا بھائی دے دیا۔ اور اس کی بھی انہیں کوئی پرواہ نہ تھی بلکہ اگر ان سے بالکل بلا قیمت مانگا جاتا تو بھی دے دیتے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مطلب یہ ہے کہ قافلے والوں نے اسے بہت کم قیمت پر خریدا۔ لیکن یہ کچھ زیادہ درست نہیں اس لیے کہ انہوں نے تو اسے دیکھ کر خوشیاں منائی تھی اور بطور پونجی اسے پوشیدہ کردیا تھا۔ پس اگر انہیں اس کی بےرغبتی ہوتی تو وہ ایسا کیوں کرتے ؟ پس ترجیح اسی بات کو ہے کہ یہاں مراد بھائیوں کا حضرت یوسف کو گرے ہوئے نرخ پر بیچ ڈالنا ہے۔ نجس سے مراد حرام اور ظلم بھی ہے۔ لیکن یہاں وہ مراد نہیں لی گئی۔ کیونکہ اس قیمت کی حرمت کا علم تو ہر ایک کو ہے۔ حضرت یوسف ؑ نبی بن نبی بن نبی خلیل الرحمن ؑ تھا۔ پس آپ تو کریم بن کریم بن کریم بن کریم تھے۔ پس یہاں مراد نقص کم تھوڑی اور کھوٹی بلکہ برائے نام قیمت پر بیچ ڈالنا ہے باوجود اس کے وہ ظلم و حرام بھی تھا۔ بھائی کو بیچ رہے ہیں اور وہ بھی کوڑیوں کے مول۔ چند درہموں کے بدلے بیس یا بائیس یا چالیس درہم کے بدلے۔ یہ دام لے کر آپس میں بانٹ لیے۔ اور اس کی انہیں کوئی پرواہ نہ تھی انہیں نہیں معلوم تھا کہ اللہ کے ہاں ان کی کیا قدر ہے ؟ وہ کیا جانتے تھے کہ یہ اللہ کے نبی بننے والے ہں۔ حضرت مجاہد ؒ کہتے ہیں کہ اتنا سب کچھ کرنے پر بھی صبر نہ ہوا قافلے کے پیچھے ہو لئے اور ان سے کہنے لگے دیکھو اس غلام میں بھاگ نکلنے کی عادت ہے، اسے مضبوط باندھ دو ، کہیں تمہارے ہاتھوں سے بھی بھاگ نہ جائے۔ اسی طرح باندھے باندھے مصر تک پہنچے اور وہاں آپ کو بازار میں لیجا کر بیچنے لگے۔ اس وقت حضرت یوسف ؑ نے فرمایا مجھے جو لے گا وہ خوش ہوجائے گا۔ پس شاہ مصر نے آپ کو خرید لیا وہ تھا بھی مسلمان۔
Additional Authentic Tafsir Resources
Access comprehensive classical Tafsir works recommended by scholars, available online for free
Tafsir Ibn Kathir
The greatest of tafseers - interprets Quran with Quran, Sunnah, Salaf statements, and Arabic
Tafsir As-Sa'di
Excellent tafsir by Shaykh Abdur-Rahman As-Sa'di - simple expressions with tremendous knowledge
Tafsir At-Tabari
Comprehensive and all-inclusive tafsir by Ibn Jarir At-Tabari - earliest major running commentary
Tafsir Al-Baghawi
Trustworthy classical tafsir - Ma'alim al-Tanzil by Al-Husayn ibn Mas'ud al-Baghawi
Scholarly Recommendation: These four tafseers are highly recommended by scholars. Tafsir Ibn Kathir is considered the greatest for its methodology of interpreting Quran with Quran, then Sunnah, then Salaf statements, and finally Arabic language. Tafsir As-Sa'di is excellent for its clarity and simple expressions. All sources are authentic and freely accessible.
Hadith References
Access authentic hadith references and scholarly commentary linked to this verse from trusted Islamic sources
Opens interactive viewer with embedded content from multiple sources
💡 Tip: Click "View Hadith References" to see embedded content from multiple sources in one place. External links open in new tabs for direct access.
Additional Tafsir Resources (Altafsir.com)
Access 7+ classical tafsir commentaries and historical context from the Royal Aal al-Bayt Institute
Links open in a new tab. Content provided by the Royal Aal al-Bayt Institute for Islamic Thought.