Ayah Study
Surah Al-Aadiyaat (سُورَةُ العَادِيَاتِ), Verse 7
Ayah 6153 of 6236 • Meccan
وَإِنَّهُۥ عَلَىٰ ذَٰلِكَ لَشَهِيدٌۭ
Translations
The Noble Quran
EnglishAnd to that he bears witness (by his deeds).
Muhammad Asad
Englishand to this, behold, he [himself] bears witness indeed:
Fatah Muhammad Jalandhari
Urduاور وہ اس سے آگاہ بھی ہے
Tafsir (Commentary)
Tafsir al-Sa'di
Salafi Approved{ وَإِنَّهُ عَلَى ذَلِكَ لَشَهِيدٌ } أي: إن الإنسان على ما يعرف من نفسه من المنع والكند لشاهد بذلك، لا يجحده ولا ينكره، لأن ذلك أمر بين واضح. ويحتمل أن الضمير عائد إلى الله تعالى أي: إن العبد لربه لكنود، والله شهيد على ذلك، ففيه الوعيد، والتهديد الشديد، لمن هو لربه كنود، بأن الله عليه شهيد.
Tafsir al-Muyassar
Salafi Approvedإن الإنسان لِنعم ربه لَجحود، وإنه بجحوده ذلك لمقر. وإنه لحب المال لشديد.
Tafsir Ibn Kathir
Salafi Approvedقال قتادة وسفيان الثوري وإن الله على ذلك لشهيد ويحتمل أن يعود الضمير على الإنسان قاله محمد بن كعب القرظي فيكون تقديره وإن الإنسان على كونه كنودا لشهيد أي بلسان حاله أي ظاهر ذلك عليه في أقواله وأفعاله كما قال تعالى " ما كان للمشركين أن يعمروا مساجد الله شاهدين على أنفسهم بالكفر".
Tafsir Ibn Kathir
Which was revealed in Makkah بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَـنِ الرَّحِيمِ (In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful. Swearing by the Horses of War about the Ungratefulness of Man and His Zeal for Wealth Allah swears by the horses when they are made to gallop into battle in His path (i.e., Jihad), and thus they run and pant, which is the sound that is heard from the horse when it runs. فَالمُورِيَـتِ قَدْحاً (Striking sparks of fire.) meaning, the striking of their hooves on the rocks, which causes sparks of fire to fly from them. فَالْمُغِيرَتِ صُبْحاً (And scouring to the raid at dawn.) meaning, the raid that is carried out in the early morning time. This is just as the Messenger of Allah ﷺ used to perform raids in the early morning. He would wait to see if he heard the Adhan (call to prayer) from the people. If he heard it he would leave them alone, and if he didn't hear it he would attack. Then Allah says, فَأَثَرْنَ بِهِ نَقْعاً (And raise the dust in clouds the while.) meaning, dust at the place of the battle with the horses. فَوَسَطْنَ بِهِ جَمْعاً (And penetrating forthwith as one into the midst.) means, then are all in the middle of that spot, together. Allah's saying; فَالْمُغِيرَتِ صُبْحاً (And scouring to the raid at dawn.) Ibn `Abbas, Mujahid and Qatadah, all said, "This means the invasion of the horses in the morning in the way of Allah." And His statement, فَأَثَرْنَ بِهِ نَقْعاً (And raise the dust in clouds the while.) This is the place in which the attack takes place. The dust is stirred up by it. And His statement, فَوَسَطْنَ بِهِ جَمْعاً (And penetrating forthwith as one into the midst.) Al-`Awfi narrated from Ibn `Abbas, `Ata, `Ikrimah, Qatadah and Ad-Dahhak that they all said, "This means into the midst of the disbelieving enemy." Concerning Allah's statement, إِنَّ الإِنسَـنَ لِرَبِّهِ لَكَنُودٌ (Verily, man is ungrateful (Kanud) to his Lord.) This is the subject what is being sworn about, and it means that he (man) is ungrateful for the favors of His Lord and he rejects them. Ibn `Abbas, Mujahid, Ibrahim An-Nakha`i, Abu Al-Jawza', Abu Al-`Aliyah, Abu Ad-Duha, Sa`id bin Jubayr, Muhammad bin Qays, Ad-Dahhak, Al-Hasan, Qatadah, Ar-Rabi` bin Anas and Ibn Zayd all said, "Al-Kanud means ungrateful." Al-Hasan said, "Al-Kanud is the one who counts the calamities (that befall him) and he forgets Allah's favors." Concerning Allah's statement, وَإِنَّهُ عَلَى ذَلِكَ لَشَهِيدٌ (And to that He bears witness.) Qatadah and Sufyan Ath-Thawri both said, "And indeed Allah is a witness to that." It is also possible that the pronoun (He) could be referring to man. This was said by Muhammad bin Ka`b Al-Qurazi. Thus, its meaning would be that man is a witness himself to the fact that he is ungrateful. This is obvious in his condition, meaning this is apparent from his statements and deeds. This is as Allah says, مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَن يَعْمُرُواْ مَسَاجِدَ الله شَـهِدِينَ عَلَى أَنفُسِهِم بِالْكُفْرِ (It is not for the idolators, to maintain the Masajid of Allah, while they witness disbelief against themselves.) (9:17) Allah said; وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ (And verily, he is violent in the love of wealth.) meaning, and indeed in his love of the good, which is wealth, he is severe. There are two opinions concerning this. One of them is that it means that he is severe. There are two opinions concerning this. One of them is that it means that he is severe in his love of wealth. The other view is that it means he is covetous and stingy due to the love of wealth. However, both views are correct. The Threat about the Hereafter Then Allah encourages abstinence from worldly things and striving for the Hereafter, and He informs of what the situation will be after this present condition, and what man will face of horrors. He says, أَفَلاَ يَعْلَمُ إِذَا بُعْثِرَ مَا فِى الْقُبُورِ (Knows he not that when the contents of the graves are poured forth) meaning, the dead that are in it will be brought out. وَحُصِّلَ مَا فِى الصُّدُورِ (And that which is in the breasts shall be made known) Ibn `Abbas and others have said, "This means what was in their souls would be exposed and made apparent." إِنَّ رَبَّهُم بِهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّخَبِيرٌ (Verily, that Day their Lord will be Well-Acquainted with them.) meaning, He knows all of that they used to do, and He will compensate them for it with the most deserving reward. He does not do even the slightest amount of injustice. This is the end of the Tafsir of Surat Al-`Adiyat, and all praise and thanks are due to Allah.
Tafsir Ibn Kathir
Salafi Approvedانسان کا نفسیاتی تجزیہ :مجاہدین کے گھوڑے جبکہ اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے ہانپتے اور ہنہاتے ہوئے دوڑتے ہیں ان کی اللہ تبارک و تعالیٰ قسم کھاتا ہے پھر اس تیزی میں دوڑتے ہوئے پتھروں کے ساتھ ان کے نعل کا ٹکرانا اور اس رگڑ سے آگ کی چنگاڑیاں اڑنا پھر صبح کے وقت دشمن پر ان کا چھاپہ مارنا اور دشمنان رب کو تہہ وبالا کرنا آنحضرت ﷺ کی یہی عادت مبارک تھی کہ دشمن کی کسی بستی پر آپ جاتے تو وہاں رات کو ٹھہر کر کام لگا کر سنتے اگر اذان کی آواز آگئی تو آپ رک جاتے نہ آتی تو لشکر کو حکم دیتے کہ بزن بول دیں پھر ان گھوڑوں کا گردو غبار اڑانا اور ان سب کا دشمنوں کے درمیان گھس جانا ان سب چیزوں کی قسم کھا کر پھر مضمون شروع ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ والعادیات سے مراد اونٹ ہیں حضرت علی بھی یہی فرماتے ہیں حضرت ابن عباس کا قول کہ اس سے مراد گھوڑے ہیں جب حضرت علی کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا گھوڑے ہمارے بدر والے دن تھے ہی کب یہ تو اس چھوٹے لشکر میں تھے جو بھیجا گیا تھا حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ایک مرتبہ خطیم میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے آ کر اس آیت کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا اس سے مراد مجاہدین کے گھوڑے ہیں جو بوقت جہاد دشمنوں پر دھاوا بولتے ہیں پھر رات کے وقت یہ گھڑ سوار مجاہد اپنے کیمپ میں آ کر کھانے پکانے کے لیے آگ جلاتے ہیں وہ یہ پوچھ کر حضرت علی کے پاس گیا آپ اس وقت زمزم کا پانی لوگوں کو پلا رہے تھے اس نے آپ سے بھی یہی سوال کیا آپ نے فرمایا مجھ سے پہلے کسی اور سے بھی تم نے پوچھا ہے ؟ کہا ہاں حضرت ابن عباس سے پوچھا ہے تو انہوں نے فرمایا مجاہدین کے گھوڑے ہیں جو اللہ کی راہ میں دھاوا بولیں حضرت علی نے فرمایا جانا ذرا انہیں میرے پاس بلانا جب وہ آگئے تو حضرت علی نے فرمایا تمہیں معلوم نہیں اور تم لوگوں کو فتوے دے رہے ہو اللہ کی قسم پہلا غزوہ اسلام میں بدر کا ہوا اس لڑائی میں ہمارے ساتھ صرف دو گھوڑے تھے ایک شخص حضرت زبیر ؓ کا دوسرا حضرت مقداد ؓ کا تو عادیات ضبحا یہ کیسے ہوسکتے ہیں اس سے مراد تو عرفات سے مزدلفہ کی طرف جانے والے اور پھر مزدلفہ سے منیٰ کی طرف جانے والے ہیں حضرت عبدالہل فرماتے ہیں یہ سن کر میں نے اپنے اگلے قول سے رجوع کرلیا اور حضرت علی نے جو فرمایا تھا وہی کہنے لگا مزدلفہ میں پہنچ کر حاجی بھی اپنی ہنڈیا روٹی کے لیے آگ سلگاتے ہیں، غرض حضرت علی کا فرمان یہ ہوا کہ اس سے مراد اون ٹ ہیں اور یہی قول ایک جماعت کا ہے جن میں ابراہیم عبید بن عمیر وغیرہ ہیں اور حضرت ابن عباس سے گھوڑے مروی ہیں مجاہد، عکرمہ، عطاء قتادہ اور ضحاک بھی یہی کہتے ہیں اور امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں بلکہ حضرت ابن عباس اور حضرت عطا سے مروی ہے کہ ضبح یعنی ہانپنا کسی جانور کے لیے نہیں ہوتا سوائے گھوڑے اور کتے کے ابن عباس فرماتے ہیں ان کے منہ سے ہانپتے ہوئے جو آواز اح اح کی نکلتی ہے یہی ضبح ہے اور دوسرے جملے کے ایک تو معنی یہ کیے گئے ہیں کہ ان گھوڑوں کی ٹاپوں کا پتھر سے ٹکرا کر آگ پیدا کرنا اور دوسرے معنی یہ بھی کیے گئے ہیں کہ ان کے سواروں کا لڑائی کی آگ کو بھڑکانا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ لڑائی میں مکرو دھوکہ کرنا اور یہ بھی مروی ہے کہ راتوں کو اپنی قیام گاہ پر پہنچ کر آگ روشن کرنا اور مزدلفہ میں حاجیوں کا بعد از مغرب پہنچ کر آگ جلانا امام ابن جریر فرماتے ہیں میرے نزدیک سب سے زیادہ ٹھیک قول یہی ہے کہ گھوڑوں کی ٹاپوں اور سموں کا پتھر سے رگڑ کھا کر آگ پیدا کرنا پھر صبح کے وقت مجاہدین کا دشمنوں پر اچانک ٹوٹ پڑنا اور جن صاحبان نے اس سے مراد اونٹ لیے ہیں وہ فرماتے ہیں اس سے مراد مزدلفہ سے منیٰ کی طرف صبح کو جانا ہے پھر یہ سب کہتے ہیں کہ پھر ان کا جس مکان میں یہ اترے ہیں خواہ جہاد میں ہوں خواہ حج میں غبار اڑانا پھر ان مجاہدین کا کفار کی فوجوں میں مردانہ گھس جانا اور چیرتے پھاڑتے مارتے پچھاڑتے ان کے بیچ لشکر میں پہنچ جانا اور یہ بھی مراد ہوسکتی ہے کہ سب جمع ہو کر اس جگہ درمیان میں آجاتے ہیں تو اس صورت میں جمعا حال موکد ہونے کی وجہ سے منصوب ہوگا ابوبکر بزار میں اس جگہ ایک غریب حدیث ہے جس میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک لشکر بھیجا تھا ایک مہینہ گذر گیا لیکن اس کی کوئی خبر نہ آئی اس پر یہ آیتیں اتریں اور اس لشکر کی اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ ان کے گھوڑے ہانپتے ہوئے تیز چال سے گئے ان کے سموں کی ٹکر سے چنگاڑیاں اڑ رہی تھیں انہوں نے صبح ہی صبح دشمنوں پر پوری یلغار کے ساتھ حملہ کردیا ان کی ٹاپوں سے گرد اڑ رہی تھی پھر غالب آ کر سب جمع ہو کر بیٹھ گئے ان قسموں کے بعد اب وہ مضمون بیان ہو رہا ہے جس پر قسمیں کھائیں گئی تھیں کہ انسان اپنے رب کی نعمتوں کا قدردان نہیں اگر کوئی دکھ درد کسی وقت آگیا ہے تو وہ تو بخوبی یاد رکھتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی ہزارہا نعمتیں جو ہیں سب کو بھلائے ہوئے ہے ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ کنود وہ ہے جو تنہا کھائے غلاموں کو مارے اور آسان سلوک نہ کرے اس کی اسناد ضعیف ہے پھر فرمایا اللہ اس پر شاہد ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ خود اس بات پر اپنا گواہ آپ ہے اس کی ناشکری اس کے افعال و اقوال سے صاف ظاہر ہے جیسے اور جگہ ہے شاہدین علی انفسھم بالکفر یعنی مشرکین سے اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کی آبادی نہیں ہوسکتی جبکہ یہ اپنے فکر کے آپ گواہ ہیں پھر فرمایا یہ مال کی چاہت میں بڑا سخت ہے یعنی اسے مال کی بیحد محبت ہے اور یہ بھی معنی ہیں کہ اس کی محبت میں پھنس کر ہماری راہ میں دینے سے جی چراتا اور بخل کرتا ہے پھر پروردگار عالم اسے دنیا سے بےرغبت کرنے اور آخرت کی طرف متوجہ کرنے کے لیے فرما رہا ہے کہ کیا انسان کو یہ معلوم نہیں کہ ایک وقت وہ آ رہا ہے کہ جب تمام مردے قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے اور جو کچھ باتیں چھپی لگی ہوئی تھیں سب ظاہر ہو جائی گی سن لو ان کا رب ان کے تمام کاموں سے باخبر ہے اور ہر ایک عمل کا بدلہ پورا پورا دینے والا ہے ایک ذرے کے برابر ظلم وہ روا نہیں رکھتا اور نہ رکھے۔ سورة عادیات کی تفسیر اللہ کے فضل و احسان سے ختم ہوئی، فالحمد اللہ۔
Additional Authentic Tafsir Resources
Access comprehensive classical Tafsir works recommended by scholars, available online for free
Tafsir Ibn Kathir
The greatest of tafseers - interprets Quran with Quran, Sunnah, Salaf statements, and Arabic
Tafsir As-Sa'di
Excellent tafsir by Shaykh Abdur-Rahman As-Sa'di - simple expressions with tremendous knowledge
Tafsir At-Tabari
Comprehensive and all-inclusive tafsir by Ibn Jarir At-Tabari - earliest major running commentary
Tafsir Al-Baghawi
Trustworthy classical tafsir - Ma'alim al-Tanzil by Al-Husayn ibn Mas'ud al-Baghawi
Scholarly Recommendation: These four tafseers are highly recommended by scholars. Tafsir Ibn Kathir is considered the greatest for its methodology of interpreting Quran with Quran, then Sunnah, then Salaf statements, and finally Arabic language. Tafsir As-Sa'di is excellent for its clarity and simple expressions. All sources are authentic and freely accessible.
Hadith References
Access authentic hadith references and scholarly commentary linked to this verse from trusted Islamic sources
Opens interactive viewer with embedded content from multiple sources
💡 Tip: Click "View Hadith References" to see embedded content from multiple sources in one place. External links open in new tabs for direct access.
Additional Tafsir Resources (Altafsir.com)
Access 7+ classical tafsir commentaries and historical context from the Royal Aal al-Bayt Institute
Links open in a new tab. Content provided by the Royal Aal al-Bayt Institute for Islamic Thought.